صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4211
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْنَا خَيْبَرَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ، فَبَنَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ، ثُمَّ قَالَ لِي:" آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ"، فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَتَهُ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ وَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ.
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے احمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یعقوب بن عبدالرحمٰن زہری نے خبر دی ‘ انہیں مطلب کے مولیٰ عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر آئے پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر کی فتح عنایت فرمائی تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کی خوبصورتی کا کسی نے ذکر کیا ‘ ان کے شوہر قتل ہو گئے تھے اور ان کی شادی ابھی نئی ہوئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے لے لیا اور انہیں ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے۔ آخر جب ہم مقام سد الصہباء میں پہنچے تو ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت فرمائی پھر آپ نے حیس بنایا۔ (جو کھجور کے ساتھ گھی اور پنیر وغیرہ ملا کر بنایا جاتا ہے) اور اسے چھوٹے سے ایک دستر خوان پر رکھ کر مجھ کو حکم فرمایا کہ جو لوگ تمہارے قریب ہیں انہیں بلا لو۔ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہی ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے عبا اونٹ کی کوہان میں باندھ دی تاکہ پیچھے سے وہ اسے پکڑے رہیں اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا اس پر رکھا اور صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہوئیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1909  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1909]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔
اس شخص نے غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں سے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرکین کی مدد کی تھی اور یہودیوں کے دوسرے قبیلے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسعد کو بھی عہد شکنی پر آمادہ کیا تھا۔
جنگ خندق کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے ان کے قلعوں پر فوج کشی کی تو حیی بن اخطب بھی ان کی حمایت میں قلعہ بند ہو گیا، جب بنو قریظہ کے قلعے فتح ہوئے تو ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا گیا اور حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ قتل ہوا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا خاوند کنانہ بن ابو الحقیق بھی جنگ خیبر میں اپنی بد عہدی کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی قیدی عورتوں میں شامل کر لی گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کے مشورے سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے منتخب فرما لیا۔
آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد میں نبی ﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے:
الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص: 511)


(2)
ولیمے میں پکا ہوا کھانا ہونا ضروری نہیں۔
کوئی بھی چیز جو کسی معاشرے میں کھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہو ولیمے کی مہمانی میں پیش کی جاسکتی ہے۔

(3)
لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا جائے تو اسے آزاد بیوی والے تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1909   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 881  
´حق مہر کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 881»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب من جعل عتق الأمة صداقها، حديث:5086، ومسلم، النكاح، باب فضيلة إعتاقه أمته ثم يتزوجها، حديث:(84)-1365 بعد الحديث:1427.»
تشریح:
1. یہ حدیث‘ غلامی سے آزادی کو مہر مقرر کرنے کی صحت کے بارے میں بالکل واضح ہے۔
جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے مگر انھوں نے اپنے موقف پر کوئی قابل اطمینان دلیل پیش نہیں کی۔
2. اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منفعت کو مہر مقرر کرنا درست ہے کیونکہ آزادی بھی منفعت ہے، اور اس کی تائید میں وہ واقعہ بھی ہے جو پہلے گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو مہر مقرر کیا تھا۔
گویا مالیت کے علاوہ دوسری چیزیں بھی حق مہر مقرر کی جا سکتی ہیں۔
امام احمد اور امام اسحٰق رحمہما اللہ وغیرہما کا یہی موقف ہے۔
وضاحت: «حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ ام المومنین حضرت صفیہ‘ حُیَــي بـن أخـطب کی بیٹی تھیں۔
ان کا سلسلۂ نسب حضرت ہارون علیہ السلام برادر موسیٰ علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
آپ اسی خانوادۂ رسالت سے تھیں۔
کنانہ بن ابی الحقیق کی زوجیت میں تھیں جو غزوۂ خیبر میں قتل ہوگیا تھا اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قیدی بن گئیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے حرم کے لیے پسند فرمایا‘ پھر مسلمان ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور اسی آزادی کو مہر مقرر کیا۔
انھوں نے ۵۰ ہجری میں وفات پائی اور انھیں بقیع میں دفن کیا گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 881   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2054  
´اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کے ثواب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2054]
فوائد ومسائل:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔
اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔
جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔
تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔
آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔
انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔
اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔
حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔
حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔
آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔
پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔
انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔
اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔
مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔
اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔
اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔
آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔
اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔
اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔
اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔
کہنے لگیں۔
یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔
بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔
لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔
تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4211  
4211. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر آئے۔ جب اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کو قلعے میں فتح عنایت فرمائی تو آپ سے صفیہ بنت حیی بن اخطب کے حسن و جمال ذکر کیا گیا۔ اس کا خاوند قتل ہو چکا تھا اور یہ دلہن بنی ہوئی تھی، لہذا نبی ﷺ نے اسے اپنی ذات کے لیے منتخب فرمایا۔ آپ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے حتی کہ سد صہباء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہو چکی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے خلوت فرمائی۔ پھر آپ نے کھجور، گھی اور پنیر سے حلوہ بنا کر ایک چھوٹے سے دستر خواں پر رکھ دیا اور مجھے حکم دیا: اپنے آس پاس والوں کو بتا دو۔ یہی حضرت صفیہ‬ ؓ ک‬ے نکاح کا ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ روانہ ہوئے۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت صفیہ‬ ؓ ک‬ے لیے اپنے پیچھے چادر کو لپیٹا۔ پھر آپ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھے اور اپنا گھٹنا ٹکا دیا۔ حضرت صفیہ‬ ؓ ن‬ے اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے مبارک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4211]
حدیث حاشیہ:

حضرت صفیہ ؓ کا نام زینب تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے منتخب فرمایا تو اس کا نام صفیہ پڑگیا اور یہی اصل نام پر غالب آگیا۔
انھیں استبرائے رحم تک حضرت ام سلیم ؓ کے پاس ٹھہرایا گیا، جب حیض سے پاک ہوگئیں تو انھیں سنوار کررسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا گیا۔

ان کا شوہر اس جنگ میں قتل کردیا گیاتھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ اپنے اموال میں سے کچھ نہیں چھپائیں گے بصورت دیگران کی ذمہ داری اور عہد ختم ہوجائے گا، لیکن حضرت صفیہ ؓ کے شوہرکنانہ بن ربیع بن ابوالحقیق نے وہ گائے کا چمڑا غائب کردیا جس میں حی بن اخطب کے زیورات اور اموال تھے، اسے وہ اٹھا کر اپنے ساتھ خیبر میں لے آیا تھا۔
جب آپ ﷺ نے ان اموال اور زیورات کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:
وہ جنگوں میں ختم ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں کنانہ کو روزانہ ایک ویرانے میں چکر لگاتے دیکھتا تھا، اس ویرانے میں وہ خود خزانہ پا گیا تو اسےبدعہدی کی وجہ سےقتل کردیا گیا۔

حضرت صفیہ ؓ کی حال ہی میں رخصتی ہوئی تھی اور وہ ابھی دلھن ہی تھیں جب انھیں قیدی بنا لیا گیا۔
(فتح الباري: 599/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4211