بلوغ المرام
كتاب العتق -- آزادی کے مسائل
2. باب المدبر والمكاتب وأم الولد
مدبر، مکاتب اور ام ولد کا بیان
حدیث نمبر: 1229
عن جابر رضي الله عنه أن رجلا من الأنصار أعتق غلاما له عن دبر لم يكن له مال غيره فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «‏‏‏‏من يشتريه مني؟» فاشتراه نعيم بن عبد الله بثمانمائة درهم. متفق عليه وفي لفظ للبخاري:" فاحتاج". وفي رواية النسائي: وكان عليه دين فباعه بثمانمائة درهم فأعطاه وقال: «اقض دينك» .
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اپنا ایک غلام مرتے وقت آزاد کر دیا۔ اس کی ملکیت صرف یہی مال تھا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو اس غلام کہ مجھ سے خریدتا ہے۔ نعیم بن عبداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں پس وہ محتاج ہوا۔ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ اس پر قرض تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم کے عوض فروخت کیا اور اسے دے کر فرمایا اپنا قرض ادا کر۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668، والنسائي، الزكاة، حديث:2547.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1229  
´مدبر، مکاتب اور ام ولد کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اپنا ایک غلام مرتے وقت آزاد کر دیا۔ اس کی ملکیت صرف یہی مال تھا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو اس غلام کہ مجھ سے خریدتا ہے۔ نعیم بن عبداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں پس وہ محتاج ہوا۔ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ اس پر قرض تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم کے عوض فروخت کیا اور اسے دے کر فرمایا اپنا قرض ادا کر۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1229»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668، والنسائي، الزكاة، حديث:2547.»
تشریح:
1. یہ حدیث کتاب البیوع میں مختصر گزر چکی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غلام کو مدبر کرنا درست ہے۔
جمہور کہتے ہیں کہ اسے تیسرے حصے میں سے تدبیر کیا جا سکتا ہے، سارے رأس المال سے نہیں۔
2. اس حدیث سے بولی دینا جائز ثابت ہوا‘ یعنی ایک چیز کو فروخت کرنے کے لیے کہنا کہ کون اس چیز کو خریدتا ہے؟ ایک نے کہا: میں اسے اتنے میں خریدتا ہوں۔
دوسرے نے کہا: میں اتنے میں خریدتا ہوں۔
اس طرح گاہک قیمت بڑھاتے جاتے ہیں۔
مالک جب دیکھتا ہے کہ اب اس کی قیمت ٹھیک لگ گئی ہے تو وہ اسے فروخت کر دیتا ہے۔
آج کل منڈیوں میں عام طور پر سودا جات اسی طرح فروخت ہو رہے ہیں اور یہ طریقہ جائز ہے۔
یاد رہے محض قیمت بڑھانے کے لیے بولی دینا جائز نہیں ہے۔
وضاحت: «حضرت نُعَیْم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا لقب نخام تھا۔
نون پر فتحہ اور خا پر تشدید ہے۔
قریش کے قبیلہ بنوعدی سے تھے لیکن قدیم الاسلام تھے۔
شروع میں اپنا ایمان مخفی رکھا۔
انھوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو بنو عدی نے کہا یہاں سے نہ جاؤ چاہے کسی بھی دین پر قائم رہو‘ کیونکہ یہ بیوگان و یتامیٰ پر خرچ کرتے تھے۔
پھر انھوں نے صلح حدیبیہ والے سال ہجرت فرمائی۔
عہد صدیقی یا فاروقی میں فتوحات شام میں شہادت پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1229   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 653  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اپنا غلام مدبر کر دیا۔ اس غلام کے سوا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور اسے فروخت کر دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 653»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668.»
تشریح:
1. صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آپ نے اسے آٹھ سو درہم میں فروخت کر دیا اور حضرت نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خرید لیا۔
دیکھیے: (صحیح البخاري‘ کفارات الأیمان‘ حدیث:۶۷۱۶) 2. سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ وہ مقروض تھا‘ اس لیے آپ نے اسے فروخت کیا تاکہ اس کا قرض اتار دیا جائے۔
دیکھیے: (سنن النسائي‘ آداب القضاء‘ حدیث:۵۴۲۰) 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت و حاجت کے وقت فروخت کرنا جائز ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ ‘ اہل حدیث اور عام فقہاء اس کی مطلقاً فروخت کے قائل ہیں۔
4. حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر فروخت کرنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 653   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2513  
´مدبر غلام کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)

(2)
جب تک آقا زندہ ہے مدبر غلام ہی رہتا ہے اور اس پر غلاموں والے سب احکام لاگو ہوتے ہیں۔

(2)
مجبوری کی حالت مدبر غلام کی اس مشروط آزادی کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہےجیسا کہ اس حدیث میں ہےکہ آزاد کرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔
صیحح بخاری میں ہے وہ محتاج تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ، حدیث: 2141)
  اس کے علاوہ مقروض بھی تھا۔ (فتح الباري، البیوع، باب بیع المدبر بحواله اسما عیلیي)

(4)
آزاد کرنے والے صحابی کا نام ابو مذکور بیان کیا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث: 3955)

(5)
خریدنے والے صحابی کا نام حضرت نعیم بن عبداللہ تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ حدیث: 2141)
انھی کو ابن نحام بھی کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے جنت میں ان کے کھنکھارنے کی آواز سنی تھی۔ (حاشہ صیحح المسلم از محمد فواد عبدالباقی الایمان باب جوازبیع المدبر)

(6)
اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ (سنن أبي داود، العتق باب فی بیع المدبرۃ، حدیث: 997)

(7)
غلام کی قیمت آٹھ سو درہم ادا كى گئی۔ (صیحح البخاري، الأحکام، باب بیع الإمام علی الناس أموالھم وضیاعھم، حدیث: 7186)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1219  
´مدبر غلام کے بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس شخص کا نام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کا نام یعقوب۔

2؎:
مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔

3؎:
بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3955  
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3955]
فوائد ومسائل:
غلام کے بارے میں یہ وصیت کرنا کہ یہ میری وفات کے بعد آزاد ہوگا بالکل مباح اور جائز ہے۔
مگر وارثوں کے حالات کے پیش نظر اگر وہ بالکل ہی مفلوک الحال ہوں توایسی وصیت کو فسخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قاضی اور حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کو فسخ کردیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3955