بلوغ المرام
كتاب الجامع -- متفرق مضامین کی احادیث
2. باب البر والصلة
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
حدیث نمبر: 1265
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من استعاذكم بالله فأعيذوه ومن سألكم بالله فأعطوه ومن أتى إليكم معروفا فكافئوه فإن لم تجدوا فادعوا له» ‏‏‏‏ أخرجه البيهقي.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جو کوئی تم سے اللہ کی نام سے پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ دو اور جو کوئی اللہ کے نام پر تم سے سوال کرے تو اس کو دو اور جو کوئی تم سے حسن سلوک و احسان کرے تو اس کو بدلہ دو اگر (پورا بدلہ دینے کی) طاقت و وسعت نہ ہو تو پھر اس کے حق میں دعا کرو۔ (سنن بیہقی)

تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:4 /199، وأبوداود، الزكاة، حديث:1672، الأعمش عنعن، وللحديث شواهد ضعيفة.»
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1265    
اللہ کے نام پر کیا گیا سوال رد نہ کیا جائے
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال: من استعاذكم بالله فاعيذوه ومن سالكم بالله فاعطوه ومن اتى إليكم معروفا فكافئوه فإن لم تجدوا فادعوا له . ‏‏‏‏ اخرجه البيهقي»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تم سے اللہ کے نام کے ساتھ پناہ مانگے اسے پناہ دو اور جو شخص تم سے اللہ کے نام کے ساتھ سوال کرے اسے دو اور جو تم سے اچھا سلوک کرے اسے بدلہ دو اگر تم (بدلہ دینے کے لئے کوئی چیز) نہ پاؤ تو اس کے لئے دعا کرو۔ بيهقي۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1265]

تخریج:
«صحيح»
[بيهقي 199/4]
[ حاكم 412/1 ]
[ احمد 99، 28/2]
[ ابونعيم فى الحلية 56/9] نے کئی سندوں سے عن اعمش عن مجاهد عن ابن عمر مرفوعاً روایت کیا ہے، حاکم نے فرمایا یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے، ذہبی نے اس کی موافقت کی اور البانی نے فرمایا۔ ان دونوں نے جو فرمایا یہی حقیقت ہے۔ [الصحيحة 254]

فوائد:
➊ ابوداؤد، ابن حبان اور حاکم نے اس روایت میں یہ لفظ زیادہ کئے ہیں: «فان لم تجدوا فادعوا له حتي تعلموا انكم قد كافاتموه»، یعنی اگر تم تمہیں بدلہ دینے کے لئے کوئی چیز نہ ملے، تو اس کے لئے اتنی دعا کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے تم نے اسے بدلہ دے دیا ہے۔
ترمذی میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کوئی عطیہ دیا جائے اگر وہ (کوئی چیز) پائے تو بدلہ دے جو نہ پائے وہ تعریف کر دے کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے (احسان کو) چھپایا اس نے ناشکری کی۔ [ترمذي البر 871]، [صحيح الترمذي 1656 ]
➋ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص سے کوئی بھلائی کی جائے اور وہ بھلائی کرنے والے کو یہ کہے «جزاك الله خيرا» اللہ تجھے بہتر بدلہ دے تو اس نے تعریف کا حق ادا کیا۔ [ترمذي۔ البر88]، [ صحيح الترمذي 1657 ]
اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی یہ کہتا ہے کہ تمہارا احسان مجھ پر اتنا بڑا ہے کہ میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا اس کا بہتر بدلہ تجھے اللہ تعالیٰ ہی عطا فرمائے۔
➌ جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو خواہ اسے تم سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو یا کسی دوسرے سے۔ اللہ کے نام پر مانگے تو اسے دو۔ سائل کا ویسے ہی حق ہے مگر جب اللہ کا نام در میان میں آ جائے تو اس کی قدر کرنا لازم ہے۔
➍ مخلوق سے وہ چیز مانگ سکتا ہے جو اس کے اختیار میں ہو ہاں اگر مخلوق سے وہ چیز مانگے جو صرف اللہ کے اختیار میں ہے تو یہ شرک ہے۔ یہی معاملہ پناہ مانگنے کا ہے۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 98   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1265  
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جو کوئی تم سے اللہ کی نام سے پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ دو اور جو کوئی اللہ کے نام پر تم سے سوال کرے تو اس کو دو اور جو کوئی تم سے حسن سلوک و احسان کرے تو اس کو بدلہ دو اگر (پورا بدلہ دینے کی) طاقت و وسعت نہ ہو تو پھر اس کے حق میں دعا کرو۔ (سنن بیہقی) «بلوغ المرام/حدیث: 1265»
تخریج:
«أخرجه البيهقي:4 /199، وأبوداود، الزكاة، حديث:1672، الأعمش عنعن، وللحديث شواهد ضعيفة.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔
اورتصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۹ /۲۶۶‘۲۶۷‘ والصحیحۃ للألباني: ۱ /۵۱۰‘ ۵۱۱‘ رقم:۲۵۴) 2.اس حدیث میں اللہ کے نام پر پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے اور اللہ کا نام لے کر سوال کرنے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور دینے اور احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی تاکید ہے۔
اللہ کے نام سے سوال کرنے والے کو حتی الوسع کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔
مگر دست سوال دراز کرنے والے کو اللہ کا واسطہ دینے سے بچنا چاہیے،تاہم پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تا کہ مسلم معاشرہ اس ناسور سے پاک ہو سکے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ملعون ہے وہ جو اللہ کا نام لے کر سوال کرے اور وہ بھی ملعون ہے جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ کچھ بھی نہ دے بشرطیکہ وہ سوال کسی بری چیز کا نہ ہو۔
(المعجم الکبیر للطبراني:۲۲ /۳۷۷‘ و مجمع الزوائد:۳ /۱۰۳) بہرحال اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سوال کرنا دوسرے کو بھی مشکل میں ڈال دیتا ہے‘ اس لیے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1672  
´جو شخص اللہ کے نام پر مانگے اسے دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو، جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، جو تمہیں دعوت دے اسے قبول کرو، اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو، اگر تم بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1672]
1672. اردو حاشیہ:
➊ اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگنا جائز ہے۔
➋ ایسے سائل کو دینے کا حکم اس لئے تاکیدی ہے۔کہ اس نے رب تعالیٰ کا عظیم واسطہ پیش کیا ہے۔اور اس نام کی عظمت کا لہاظ کرناچاہیے۔
➌ محسن کے احسان کا بدلہ دینا بھی لازمی امر اور حسن اخلاق کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مال وغیرہ نہ ہوتو محسن کو کثرت سے دُعائے خیر دینی چاہیے۔جیسے کہ جامع ترمذی کی حدیث میں آتا ہے۔ جس شخص پر کوئی احسان کیا گیا اور اس نے جواب میں (جزاک اللہ خیرا) اللہ تمھیں بہترین بدلہ دے کہہ دیا تو اس نے اس کی مدح میں بہت مبالغہ کیا (جامع ترمذی البر والصلۃ حدیث 2035) ایک عظیم دُعا ہے۔بشرط یہ کہ ایمان ویقین سے دی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1672