صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4238
وَيُذْكَرُ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَانَ عَلَى سَرِيَّةٍ مِنْ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَدِمَ أَبَانُ وَأَصْحَابُهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْبَرَ بَعْدَ مَا افْتَتَحَهَا، وَإِنَّ حُزْمَ خَيْلِهِمْ لَلِيفٌ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تَقْسِمْ لَهُمْ، قَالَ أَبَانُ: وَأَنْتَ بِهَذَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرَ مِنْ رَأْسِ ضَأْنٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَانُ اجْلِسْ فَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ".
اور زبیدی سے روایت ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عنبسہ بن سعید نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو خبر دے رہے تھے کہ ابان رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سریہ پر مدینہ سے نجد کی طرف بھیجا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ خیبر فتح ہو چکا تھا۔ ان لوگوں کے گھوڑے تنگ چھال ہی کے تھے ‘ (یعنی انہوں نے مہم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی)۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! غنیمت میں ان کا حصہ نہ لگایئے۔ اس پر ابان رضی اللہ عنہ بولے اے وبر! تیری حیثیت تو صرف یہ کہ قدوم الضان کی چوٹی سے اتر آیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابان! بیٹھ جا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا حصہ نہیں لگایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4238  
4238. حضرت عنبسہ بن سعید ہی سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ سعید بن عاص ؓ کو بتا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید ؓ کو کسی مہم پر مدینہ طیبہ سے نجد کی طرف بھیجا تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: پھر ابان ؓ اور ان کے ساتھی نبی ﷺ کے پاس خیبر میں آئے جب آپ اسے فتح کر چکے تھے۔ مہم سے واپس آنے والوں کے گھوڑوں کی پٹیاں (ڈوریں) چھال کی تھیں۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مال غنیمت میں ان کا حصہ نہ لگائیے۔ حضرت ابان ؓ نے کہا: اے وبر! تیری حیثیت تو صرف یہ ہے کہ جنگلی بیری کی چوٹی سے اتر کر آیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: اے ابان! تم بیٹھ جاؤ۔ آپ نے مال غنیمت سے انہیں کچھ نہ دیا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا: "ضال" جنگلی بیری کو کہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4238]
حدیث حاشیہ:
ابن قوقل ؓ صحابی ہیں ابان بن سعید ؓ ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور اسی حالت میں انہوں نے ابن قوقل ؓ کو شہید کیا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا اشارہ اس واقعہ کی طرف تھا مگر ابان بن سعیدؓ کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی اور ان کی ذات پر یہ نکتہ چینی کی۔
(غفراللہ لھم أجمعین)
وبر ایک جانور بلی کے برابر ہوتا ہے۔
ضان اس پہاڑ کا نام ہے جو حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ملک دوس میں تھا بعض نسخوں میں لفظ فلم یقسم لھم کے آگے یہ الفاظ اور ہیں قال ابو عبداللہ الضال السدر یعنی امام بخاری نے کہا ضال جنگلی بیری کو کہتے ہیں۔
یہ تفسیر اسی نسخہ کی بناءپر ہے جن میں بجائے راس ضان کے راس ضال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4238   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4238  
4238. حضرت عنبسہ بن سعید ہی سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ سعید بن عاص ؓ کو بتا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید ؓ کو کسی مہم پر مدینہ طیبہ سے نجد کی طرف بھیجا تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: پھر ابان ؓ اور ان کے ساتھی نبی ﷺ کے پاس خیبر میں آئے جب آپ اسے فتح کر چکے تھے۔ مہم سے واپس آنے والوں کے گھوڑوں کی پٹیاں (ڈوریں) چھال کی تھیں۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مال غنیمت میں ان کا حصہ نہ لگائیے۔ حضرت ابان ؓ نے کہا: اے وبر! تیری حیثیت تو صرف یہ ہے کہ جنگلی بیری کی چوٹی سے اتر کر آیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: اے ابان! تم بیٹھ جاؤ۔ آپ نے مال غنیمت سے انہیں کچھ نہ دیا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا: "ضال" جنگلی بیری کو کہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4238]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ فتح خیبر کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ نے اموال غنیمت سے کچھ طلب کیا، اس پر سعید بن عاص ؓ کے بیٹے حضرت ابان ؓ نے کہا:
اسے مال غنیمت سے کچھ نہ دیں کیونکہ انھیں نے خیبر کی جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ!یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کی بات کو توجہ سے سناجائے او ر اس پر عمل کیاجائے۔

چونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ پست قد تھے،انھوں نے حقارت کے طور پر حضرت ابوہریرہ ؓ کو دبر سے تشبیہ دی اور ان پر طنز کیا۔

واضح رہے کہ ابن قوقل ؓ کو حضرت ابان ؓ نے غزوہ اُحد میں شہید کیا تھا جبکہ وہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
وہ غزوہ خیبر سے پہلے مسلمان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ نے انھیں کسی مہم پر بھیجا تھا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے قاتل کو مالِ غنیمت سے حصہ نہیں دینا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4238