صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
43. بَابُ غَزْوَةُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ:
باب: غزوہ زید بن حارثہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4250
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ عَلَى قَوْمٍ فَطَعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ، فَقَالَ:" إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ كَانَ خَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک جماعت کا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنایا۔ ان کی امارت پر بعض لوگوں کو اعتراض ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج تم کو اس کی امارت پر اعتراض ہے تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو۔ حالانکہ اللہ کی قسم وہ امارت کے مستحق و اہل تھے۔ اس کے علاوہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ اسامہ رضی اللہ عنہ ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3816  
´زید بن حارثہ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کر چکے ہو ۱؎، قسم اللہ کی! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3816]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ کا اشارہ غزوہ موتہ میں زید کو امیر بنانے کے واقعے کی طرف ہے،
اس حدیث سے دونوں باپ بیٹوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3816   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4250  
4250. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو ایک قوم پر امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر آج تمہیں اس کی امارت پر اعتراض ہے تو تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو۔ اللہ کی قسم! یقینا وہ اس امارت کے اہل اور حق دار تھے اور بلاشبہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ (اسامہ بن زید ؓ) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4250]
حدیث حاشیہ:
ان طعنہ کرنے والوں کا سردار عیاش بن ابی ربیعہ تھا وہ کہنے لگا آنحضرت ﷺ نے ایک لڑکے کو مہاجرین کا افسر بنا دیا ہے۔
اس پر دوسرے لوگ بھی گفتگو کرنے لگے۔
یہ خبر حضرت عمرؓ کو پہنچی۔
انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا اور آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی۔
آپ بہت خفا ہوئے اور یہ خطبہ مذکورہ سنایا۔
اسی کو جیش اسامہ کہتے ہیں۔
مرض الموت میں آپ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر روانہ کر دینا۔
اسامہ ؓ کے سردارمقرر کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد ان کافروں کے ہاتھوں سے مارے گئے تھے۔
اسامہ کی دلجوئی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد کی شہادت یاد کرکے ان کافروں سے دل کھول کرلڑیں گے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی سرداری جائز ہے۔
کیو نکہ ابو بکر اور عمر ؓ یقینا اسامہ ؓ سے افضل تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4250   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4250  
4250. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو ایک قوم پر امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر آج تمہیں اس کی امارت پر اعتراض ہے تو تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو۔ اللہ کی قسم! یقینا وہ اس امارت کے اہل اور حق دار تھے اور بلاشبہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ (اسامہ بن زید ؓ) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4250]
حدیث حاشیہ:

جس لشکر کا حضرت اسامہ ؓ کو امیر مقرر کیا گیا تھا اسے جیش اسامہ کہا جاتا ہے۔
حضرت اسامہ ؓ کو امیر بنانے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ ؓ غزوہ موتہ میں کافروں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے حضرت اسامہ ؓ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد گرامی کی شہادت کو یاد کر کے بے جگری سے لڑیں گے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو کئی لڑائیوں میں سردار مقرر کیا تھا حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے سات لڑائیاں ان کی زیر امارت لڑی ہیں انھیں پہلے نجد کی طرف پھر بنو سلیم کی طرف پھرقریش کے تجارتی قافلوں کی طرف پھر بنو ثعلبہ کی طرف پھر حسمی کی طرف پھر وادی القری کی طرف اور آخر میں بنو فزارہ کی طرف امیر بنا کر روانہ کیا گیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ آخری غزوہ ہے۔
اس میں بڑے بڑے مہاجر اور انصار شریک تھے۔
حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ وغیرہ صحابہ ان کی زیر کمان تھے۔

رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھاکہ زمانہ جاہلیت کے دستور کو مٹا کر جس میں قابلیت ہو اس کو امیر بنایا جائے۔
(فتح الباري: 624/7)
کسی فارسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
بزرگی بعقل است نہ بہ سال۔
۔
۔
تونگری بدل است نہ بمال
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4250