صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
48. بَابُ غَزْوَةِ الْفَتْحِ فِي رَمَضَانَ:
باب: فتح مکہ کا بیان جو رمضان سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
حدیث نمبر: 4276
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي رَمَضَانَ مِنْ الْمَدِينَةِ وَمَعَهُ عَشَرَةُ آلَافٍ، وَذَلِكَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِ سِنِينَ وَنِصْفٍ مِنْ مَقْدَمِهِ الْمَدِينَةَ، فَسَارَ هُوَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى مَكَّةَ يَصُومُ وَيَصُومُونَ حَتَّى بَلَغَ الْكَدِيدَ وَهُوَ مَاءٌ بَيْنَ عُسْفَانَ وَقُدَيْدٍ أَفْطَرَ وَأَفْطَرُوا"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآخِرُ فَالْآخِرُ.
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ کہا مجھے زہری نے خبر دی ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح کے لیے) مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ (دس یا بارہ ہزار کا) لشکر تھا۔ اس وقت آپ کو مدینہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ جو مسلمان تھے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزے سے تھے اور تمام مسلمان بھی ‘ لیکن جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو قدید اور عسفان کے درمیان ایک چشمہ ہے تو آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ زہری نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے آخری عمل پر ہی عمل کیا جائے گا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 248  
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه، وكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید (ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا (روزے نہ رکھے) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ (صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 248]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1944، من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي 1715، من حديث مالك به، ومسلم 1112، من حديث الزهري به]

تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے اگر سفر میں سخت مشقت ہے تو افطار افضل ہے اور نہ آسانی کی حالت میں روز ہ بہتر ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن یہی قول راجح ہے۔ والله اعلم
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ قصر کرتے رہے اور میں (نماز) پوری پڑھتی رہی، آپ افطار کر تے رہے اور میں روزے رکھتی رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے اچھا کیا ہے۔ [سنن النسائي: 121/3 ح 1457، وسنده صحيح]
● اس روایت پر حافظ ابن تیمیہ کی جرح مردود ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 295/1 ح 663 و سنده صحيح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں روزے رکھتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 16/3 ح 8980 سنده صحيح]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن شئت فصم وإن شئت فأفطر» اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔ [صحيح بخاري:1943، صحيح مسلم:1121، الاتحاف الباسم:465]

تنبیہ: التحاف الباسم سے یہی کتاب مراد ہے الموطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم جس کے متن میں امام عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ کے بیان کردہ الموطأ کا نسخہ درج ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 50   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1661  
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1661]
اردو حاشہ:
فائده:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کےلئے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی۔
خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہے۔
یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے سفر میں نمازقصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلق اجازت دی ہے۔
اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴾  (البقرة: 184/2)
 تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہوتو وہ (رمضان کے علاوہ)
دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح و ہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیاجائے۔ (مسند أحمد: 108/2)
 البتہ اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو ا س میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہوتو پھر روزہ رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1661   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2404  
´تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2404]
فوائد ومسائل:
(1) یہ واقعہ فتح مکہ کے سفر کا ہے۔

(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے سفر میں صبح کو روزے کی نیت کی ہو تو شرعی عذر سے کسی وقت اگر وہ افطار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2404   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4276  
4276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ماہ رمضان میں دس ہزار صحابہ ؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کو مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ اس سفر میں آپ اور آپ کے ساتھ آنے والے مسلمان روزے سے تھے۔ پھر جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمہ ہے تو وہاں آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ شرعی احکام میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے آخری عمل کو ہی لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4276]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں بھی مسافر کے لیے خاص اجازت ہے کہ مسافر چا ہے تو سفرمیں روزہ نہ رکھے اور سفر پورا کر کے چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کر لے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4276   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4276  
4276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ماہ رمضان میں دس ہزار صحابہ ؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کو مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ اس سفر میں آپ اور آپ کے ساتھ آنے والے مسلمان روزے سے تھے۔ پھر جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمہ ہے تو وہاں آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ شرعی احکام میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے آخری عمل کو ہی لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4276]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اثنائے سفر میں روزہ افطار کیاجاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
"جو شخص مریض ہو یاسفر پر ہو وہ بعد میں فوت شدہ روزے رکھ لے۔
" (البقرۃ 2: 185۔
)

اس حدیث میں ان لوگوں کا درد ہے جو کہتے ہیں کہ جس نے اول رمضان میں روزہ رکھ لیا، اب اس افطار نہیں کرنا چاہیے لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل دوران سفر رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنا ہے اور جوسارا رمضان مقیم ہوا سے رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔

اس حدیث میں امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے لیے دس ہزار کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور روانگی کے وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت کیے ہوئے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔

واضح رہے کہ اس حدیث میں لشکر کی تعداد دس ہزار مذکور ہے جبکہ صاحب مغازی نے بارہ ہزار ذکر کی ہے جن میں مہاجرین، بانصار، اسلم،غفار، مزینہ، اور جہینہ کے قبائل بھی شامل ہیں، ان دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ دس ہزار صرف مدینہ طیبہ کا لشکر تھا، پھر اس کے بعد دوہزار مذید قبائلی افراد شامل ہوگئے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 7/8۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4276