صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
49. بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
حدیث نمبر: 4281
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى نَاقَتِهِ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفَتْحِ يُرَجِّعُ، وَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ يَجْتَمِعَ النَّاسُ حَوْلِي لَرَجَّعْتُ كَمَا رَجَّعَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اپنے اونٹ پر سوار ہیں اور خوش الحانی کے ساتھ سورۃ الفتح کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر اس کا خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھے گھیر لیں گے تو میں بھی اسی طرح تلاوت کر کے دکھاتا جیسے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنایا تھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1467  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
1467. اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جناب معاویہ بن قرۃ نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت پڑھ کر سنائی۔ اور کہا کہ اگر لوگوں کے اکھٹے ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ تو میں تمھیں سیدنا ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت سناتا جو انہوں نے مجھے نبی کریمﷺ سے سنائی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ان کی ترجیح کس طرح تھی؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار [صحیح بخاری، التوحید، حدیث: 7540]
ترجیع سے مراد آواز کو حلق میں لوٹانا اور بلند کرنا ہے۔ تاکہ لحن لزیز بن جائے۔ معلوم ہوا ترجیع اور عمدہ لحن سے قرآن پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4281  
4281. حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا۔ آپ اس وقت سورہ فتح بڑی خوش الحانی سے پڑح رہے تھے۔ راوی کہتا ہے: اگر میرے گرد لوگوں کے جمع ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی اسی طرح خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سناتا جیسے انہوں نے پڑھ کر سنایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4281]
حدیث حاشیہ:

ایک لفظ کو پہلے آہستہ، پھر اسے بآواز بلند پڑھنے کو ترجیع کہتے ہیں۔
راوی حدیث حضرت معاویہ بن قرہ نےحضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق تھوڑی سی قراءت کی پھر وضاحت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دھیمے لہجے سے اس سورت کو پڑھا۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047۔
)

بعض روایات میں مزید تفصیل اور صوتی طریقے کی وضاحت ہے۔
حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ پھرمعاویہ بن قرہ نے حضرت ابن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق قراءت کی اور فرمایا:
اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہو کہ لوگوں کا ہجوم ہوگا تو میں ترجیع سے پڑھ کر تمھیں سناؤں۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے پوچھا:
ترجیع کیا ہوتی ہے؟تو انھوں نے بتایا کہ تین مرتبہ حلق میں آواز کو پھیرا جائے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540۔
)


واضح رہے کہ یہ ترجیع سواری پر بیٹھنے کی وجہ سے غیر اختیاری نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے اختیار سے پڑھاتھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4281