صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
49. بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
حدیث نمبر: 4283
ثُمَّ قَالَ:" لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ، وَلَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُؤْمِنَ"، قِيلَ لِلزُّهْرِيِّ: وَمَنْ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ؟ قَالَ: وَرِثَهُ عَقِيلٌ، وَطَالِبٌ، قَالَ مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ: أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا فِي حَجَّتِهِ؟ وَلَمْ يَقُلْ يُونُسُ حَجَّتِهِ، وَلَا زَمَنَ الْفَتْحِ.
‏‏‏‏ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ‘ کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مومن کا وارث ہو سکتا ہے۔ زہری سے پوچھا گیا کہ پھر ابوطالب کی وراثت کسے ملی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ ان کے وارث عقیل اور طالب ہوئے تھے۔ معمر نے زہری سے (اسامہ رضی اللہ عنہ کا سوال یوں نقل کیا ہے کہ) آپ اپنے حج کے دوران کہاں قیام فرمائیں گے؟ اور یونس نے (اپنی روایت میں) نہ حج کا ذکر کیا ہے اور نہ فتح مکہ کا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2729  
´مسلمان اور کافر و مشرک ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2729]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
کافر سے ہر غیر مسلم مراد ہے، خواہ وہ اہل کتاب (یہودی یا عیسائی)
ہو، کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مثلاً:
ہندو، سکھ، بدھ، دہریہ، قادیانی اور بہائی وغیرہ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2729   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2107  
´مسلمان اور کافر کے درمیان وراثت باطل ہونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ مسلمان کسی مرنے والے کافر رشتہ دار کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کافر اپنے مسلمان رشتہ دار کا وارث ہوگا،
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4283  
4283. پھر آپ نے فرمایا: مومن، کافر کا وارث نہیں بنتا اور نہ کافر مومن کا وارث بنتا ہے۔ زہری سے کہا گیا: ابوطالب کا وارث کون ہوا تھا؟ تو انہوں نے کہا: عقیل اور طالب وارث ہوئے تھے۔ معمر نے زہری سے رویت کرتے ہوئے کہا: ہم کل کہاں اقامت کریں گے۔ یہ حجۃ الوداع کے وقت کہا تھا۔ البتہ یونس نے اپنی روایت میں حجۃ الوداع کا ذکر نہیں کیا اور نہ فتح مکہ ہی کا زمانہ کہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4283]
حدیث حاشیہ:
عقیل اور طالب اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔
اس لیے ابو طالب کے وہ وارث ہوئے اور علی اور جعفر ؓ کو کچھ ترکہ نہیں ملا کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4283   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4283  
4283. پھر آپ نے فرمایا: مومن، کافر کا وارث نہیں بنتا اور نہ کافر مومن کا وارث بنتا ہے۔ زہری سے کہا گیا: ابوطالب کا وارث کون ہوا تھا؟ تو انہوں نے کہا: عقیل اور طالب وارث ہوئے تھے۔ معمر نے زہری سے رویت کرتے ہوئے کہا: ہم کل کہاں اقامت کریں گے۔ یہ حجۃ الوداع کے وقت کہا تھا۔ البتہ یونس نے اپنی روایت میں حجۃ الوداع کا ذکر نہیں کیا اور نہ فتح مکہ ہی کا زمانہ کہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4283]
حدیث حاشیہ:

ابوطالب کے چار بیتے تھے:
طالب،عقیل، جعفر اور علی۔
طالب اورعقیل کافرتھے۔
انھوں نے اپنے باپ کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا اور حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ مسلمان ہونے کی وجہ سے ابوطالب کے وارث نہ بن سکے۔

طالب غزوہ بدر میں ماراگیا اور عقیل متروکہ جائیداد فروخت کرتا رہاتھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عقیل نے ہمارے لیے کیا چھوڑا ہے، جہاں ہم اقامت کریں۔
اس طرح کا جواب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دیا تھا جس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
(فتح الباري: 19/8۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4283