Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب النكاح و الطلاق
نکاح اور طلاق کے احکام و مسائل
بیک وقت تین طلاق دینے کا بیان
حدیث نمبر: 643
اَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نَا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِیْ ابْنُ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ اَنَّ اَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ طَلَاقَ الثَّلَاثِ کَانَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ، وَثَلَاثًا مِنْ اَمَارَةِ عُمَرَ وَاحِدَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ.
طاؤس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابوالصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے تین سال تک تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی تھیں؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، رقم: 16/1472. سنن ابوداود، كتاب الطلاق، باب نسخ المراجعة الخ، رقم: 2200. سنن نسائي، رقم: 3406. مسند احمد: 314/1.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 643 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 643  
فوائد:
معلوم ہوا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم،سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقیں ایک شمار ہوا کرتی تھیں اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو بعد میں موقف اختیار کیا وہ اپنے اجتہاد سے تھا نہ کہ کسی نص سے تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جس طرح نماز اپنے اپنے ٹائم پر ادا ہوتی ہے یعنی ظہر اپنے وقت پر، عصر اپنے وقت پر اور مغرب اپنے وقت پر لیکن اگر کوئی کہے کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء یہ تمام ظہر کے وقت میں ادا کرلیں تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ان نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر ادا کیا جائے گا، اسی طرح ہر طلاق اپنے اپنے وقت پر ہے، لیکن اگر کوئی ایک ہی وقت میں تینوں دے دیتا ہے تو درست نہیں ہے۔ اکٹھی تین طلاقوں کے متعلق اہل علم کے چار مختلف اقوال ہیں:
(1).... جمہور اور ائمہ اربعہ کا موقف ہے: تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
(2).... علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف ہے: ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
(3).... سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے: عورت سے دخول نہ کیا گیا ہو تو تینوں واقع ہوجائیں گی، اگر کرلیا تو ایک ہی واقع ہوگی۔ (دیکھئے روایت نمبر: 778)
(4).... صرف ایک رجعی طلاق ہی واقع ہوگی۔ آخری موقف ہی زیادہ راجح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیة: 3؍ 16۔ اعلام الموقعین: 3؍ 30۔ فتاویٰ اسلامیة: 3؍ 49)
اور امت کے لیے بھی حجت شرعیہ صرف اور صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ سیّدنا ابورکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں۔ پھر اس پر نادم وپشیمان ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ سے فرمایا: ((اِنَّهَا وَاحِدَةً)) (مسند احمد: 1؍ 265 اسنادہ حسن) وہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 643