صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
35. بَابُ لاَ يَبْصُقْ عَنْ يَمِينِهِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: اس بارے میں کہ نماز میں اپنے دائیں طرف نہ تھوکنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 410
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبَا سَعِيدٍ أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي حَائِطِ الْمَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً فَحَتَّهَا، ثُمَّ قَالَ:" إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَخَّمْ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے عقیل بن خالد کے واسطے سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے حمید بن عبدالرحمٰن سے کہ ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا اگر تم میں سے کسی کو تھوکنا ہو تو اسے اپنے چہرے کے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:410  
410. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم لگا ہوا دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اور اسے صاف کر دیا، پھر فرمایا: اگر کسی کو بلغم آءے تو وہ اسے سامنے کی جانب نہ تھوکے اور نہ دائیں جانب ڈالے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:410]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے عنوان میں بحالت نماز دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا ذکر کیا ہے، جبکہ روایات مطلق ہیں، ان میں نماز کی قید نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں نماز کی قید موجود ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری حدیث انس 413 اور حدیث ابی ہریرہ ؓ 416 میں ہے، اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک ان مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا۔
نماز کے علاوہ دائیں جانب تھوکنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق دیگر روایات کو دیکھنا ہو گا۔

امام نووی ؒ نے اس کے متعلق مطلق طور بت ممانعت کا ذکر کیا ہے، خواہ مسجد میں وہ یا مسجد سے باہر نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔
چنانچہ متعدد اسلاف سے اس کی ممانعت منقول ہے۔
جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز کے علاوہ بھی دائیں جانب تھوکنے کو ممنوع قراردیا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دائیں جانب نہیں تھوکا۔
حضرت عمر عبدالعزیز ؒ نے اپنے صاحبزادے کو دائیں جانب تھوکنے سے مطلق طور پر منع فرمایا۔
جو حضرات بحالت نماز کی قید لگاتے ہیں ان کی دلیل غالباً وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نماز میں دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔
(صحیح البخاري،الصلاة، حدیث: 416)
یہ اس صورت میں ہو گا کہ جب نگرانی کرنے اور حسنات لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ فرشتہ مراد ہو، کیونکہ نگران اور کراماً کا تبین تو ہر وقت ہی دائیں جانب رہتے ہیں۔
(فتح الباري: 661/1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں فی الصلاۃ کا لفظ بڑھا کر امام مالک ؒ کی تائید کی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ممانعت نماز کے ساتھ خاص ہے۔
ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف راجح ہے، کیونکہ بحالت نماز اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نمازی کی دائیں جانب متعین کرتا ہے جو اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے، اس لیے بحالت نماز دائیں جانب تھوکنا ممنوع اور بائیں جانب جائز ہے۔
واضح رہے کہ نمازی کو بائیں جانب تھوکنے کی اجازت اس وقت ہوگی، جب اس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو، جیسا کہ ہم آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت کریں گے، بائیں جانب تھوکنے کے جواز کے لیے مشہور ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہےجو اس کے دل میں وساوس ڈالتا ہے یہ تھوک شیطان کے سر پر گرتا ہے اور یوں اس کی ذلت و رسوائی کا سامان ہوتا ہے۔
اس توجیہ کی بنیاد ایک روایت ہے جو اگرچہ مشہور ہے، لیکن بالکل ضعیف ہے، ملاحظہ ہو۔
المعجم الکبیر للطبراني ؒ 8/199، رقم الحدیث: 7808، الطبعة الثانیة
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 410