صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
55. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورٌ رَحِيمٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم‏» تک۔
حدیث نمبر: 4321
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ، قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ"، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، فَقُمْتُ، فَقَالَ:" مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: صَدَقَ، وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنِّي، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُعْطِيَكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ، فَأَعْطِهِ"، فَأَعْطَانِيهِ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بن کثیر بن افلح نے، انہیں قتادہ کے مولیٰ ابو محمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے لیے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے (یعنی آگے پیچھے ہو گئے)۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہو رہا ہے، میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے بھینچا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی، آخر وہ مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ پھر مسلمان پلٹے اور (جنگ ختم ہونے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کے لیے کوئی گواہ بھی رکھتا ہو تو اس کا تمام سامان و ہتھیار اسے ہی ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے، اے ابوقتادہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں (کہ سامان مجھ سے نہ لیں) اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابوقتادہ کو دے دو۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام کے بعد یہ میرا پہلا مال تھا، جسے میں نے حاصل کیا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2717