صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4325
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الْأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّائِفَ، فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، قَالَ:" إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ، وَقَالُوا: نَذْهَبُ وَلَا نَفْتَحُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: نَقْفُلُ، فَقَالَ:" اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ"، فَغَدَوْا، فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ:" إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، فَأَعْجَبَهُمْ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: فَتَبَسَّمَ، قَالَ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْخَبَرَ كُلَّهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس نابینا شاعر نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اب ان شاءاللہ ہم واپس ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے ناکام لوٹنا بڑا شاق گزرا۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں (راوی نے) ایک مرتبہ «نذهب» کے بجائے «نقفل» کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم۔۔۔ لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں (یہ کیونکر ہو سکتا ہے) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کے لیے آ جاؤ۔ پس وہ صحابہ سویرے ہی آ گئے لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہو گئی۔ اب پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ہم کل واپس چلیں گے۔ صحابہ نے اسے بہت پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس پڑے۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے یہ پوری خبر بیان کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4325  
4325. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن سے کچھ نہ پا سکے۔ آخر آپ ﷺ نے فرمایا: ہم ان شاءاللہ کل یہاں سے لوٹ جائیں گے۔ یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری اور وہ کہنے لگے: کیا ہم فتح کے بغیر واپس جائیں؟ آپ نے فرمایا: اچھا صبح جنگ کا آغاز کرو۔ چنانچہ انہوں نے صبح جنگ چھیڑ دی تو انہیں بہت زخم آئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کل ان شاءاللہ ہم واپس چلیں گے۔ یہ سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے تو نبی ﷺ کو ہنسی آ گئی۔ کبھی سفیان نے کہا کہ آپ ﷺ تبسم فرمانے لگے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے سارا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4325]
حدیث حاشیہ:
اس جنگ میں الٹا مسلمانوں ہی کا نقصان ہوا کیونکہ طائف والے قلعہ کے اندر تھے اور ایک برس کا ذخیرہ انہوں نے اس کے اندر رکھ لیا تھا۔
آنحضرت ﷺ اٹھارہ دن یا پچیس دن یا اور کم وبیش اس کا محاصرہ کئے رہے۔
کافر قلعہ کے اندر سے مسلمانوں پر تیر برساتے رہے، لوہے کے ٹکڑے گرم کر کرکے پھینکتے جس سے کئی مسلمان شہید ہوگئے۔
آپ نے نوفل بن معاویہ ؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا یہ لوگ لومڑی کی طرح ہیں جو اپنے بل میں گھس گئی ہے۔
اگر آپ یہاں ٹھہرے رہیں گے تو لومڑی پکڑ پائیں گے اگر چھوڑ دیں گے تو لومڑی آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4325   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4325  
4325. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن سے کچھ نہ پا سکے۔ آخر آپ ﷺ نے فرمایا: ہم ان شاءاللہ کل یہاں سے لوٹ جائیں گے۔ یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری اور وہ کہنے لگے: کیا ہم فتح کے بغیر واپس جائیں؟ آپ نے فرمایا: اچھا صبح جنگ کا آغاز کرو۔ چنانچہ انہوں نے صبح جنگ چھیڑ دی تو انہیں بہت زخم آئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کل ان شاءاللہ ہم واپس چلیں گے۔ یہ سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے تو نبی ﷺ کو ہنسی آ گئی۔ کبھی سفیان نے کہا کہ آپ ﷺ تبسم فرمانے لگے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے سارا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4325]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہوازن سے حاصل شدہ مال غنیمت جعرانہ میں رکھا اور خود طائف کا محاصرہ کر لیا۔
لیکن اہل قلعہ نے وہاں اتنا سامان جمع کر رکھا تھا جو انھیں ایک سال کے لیے کافی تھا انھوں نے مسلمانوں پر تیروں کے ساتھ گرم سلاحیں باندھ کر پھینکیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن شیبہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔
کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل طائف کا محاصرہ کیا تو صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ثقیف کے تیروں نےہمیں جلا دیا ہے، آپ ان پر بددعا فرمائیں تو آپ ﷺ نے دعا کی:
"اے اللہ!ثقیف کو ہدایت دے۔
" (المصنف لابن أبي شیبة: 108/11)
پھر آپ نے نوفل بن معاویہ ؓ سے مشورہ کیا تو انھوں نے عرض کی کہ یہ لوگ لومڑی کی طرح اپنے بل میں گھس گئے ہیں اگر آپ یہاں ٹھہریں گے تو ان پر قابو پانا ممکن ہے اور چھوڑنے کی صورت میں وہ آپ کا نقصان نہیں کر سکیں گے۔
ان کے مشورے کے بعد آپ نے وہاں سے کوچ کا پروگرام بنایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا جیسا کہ حدیث میں ہے لڑائی شروع ہوئی تو مسلمان نیچے سے تیر پھینکتے تو نشانہ خطا جاتا اور دشمن اوپر سے تیر پھینکتے تو نشانہ خطانہ جاتا اب مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ان کا واپس جانا ہی بہتر ہےاس لیے جب دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کل ہم واپس جائیں گے تو وہ خوش ہو گئے کیونکہ اوپر سے آنے والے تیروں سے بچنا بہت مشکل تھا۔
'' (فتح الباري: 56/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4325