صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4326
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَبَا بَكْرَةَ، وَكَانَ تَسَوَّرَ حِصْنَ الطَّائِفِ فِي أُنَاسٍ، فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ"، وَقَالَ هِشَامٌ: وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، أَوْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا، وَأَبَا بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَاصِمٌ: قُلْتُ: لَقَدْ شَهِدَ عِنْدَكَ رَجُلَانِ حَسْبُكَ بِهِمَا، قَالَ: أَجَلْ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَأَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ، فَنَزَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَالِثَ ثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الطَّائِفِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے سنا کہا میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے جو طائف کے قلعے پر چند مسلمانوں کے ساتھ چڑھے تھے اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ اور ہشام نے بیان کیا اور انہیں معمر نے خبر دی، انہیں عاصم نے، انہیں ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی نے، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عاصم نے بیان کیا کہ میں نے (ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ سے یہ روایت ایسے دو اصحاب (سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما) نے بیان کی ہے کہ یقین کے لیے ان کے نام کافی ہیں۔ انہوں نے کہا یقیناً ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا اور دوسرے (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں جو تیسویں آدمی تھے ان لوگوں میں جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4326  
4326. حضرت ابو عثمان سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعد ؓ سے سنا۔۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر پھینکا۔۔ نیز میں نے ابو بکرہ سے بھی سنا اور وہ ان چند آدمیوں میں سے ہیں جو طائف کے قلعے کی دیوار پر چڑھے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں حضرات نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جس نے دیدہ دانستہ خود کو اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے۔ ہشام نے کہا: ہمیں معمر نے عاصم سے بیان کیا کہ ان (عاصم) سے ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی نے کہا: میں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکرہ ؓ کو نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے (ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی سے) کہا: آپ کے ہاں تو دو ایسے شخص گواہی دے رہے ہیں جو تمہیں کافی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں کیونکہ ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص ؓ) تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4326]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا یہ ہشام کی تعلیق مجھے موصولاً نہیں ملی اور اس کے سند کے بیان کرنے سے امام بخار ی ؒ کی غرض یہ ہے کہ اگلی روایت کی تفصیل ہوجائے، اس میں مجملًا یہ مذکور تھا کہ کئی آدمیوں کے ساتھ قلعہ پر چڑھے تھے، اس میں بیان ہے کہ وہ تیس آدمی تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4326   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4326  
4326. حضرت ابو عثمان سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعد ؓ سے سنا۔۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر پھینکا۔۔ نیز میں نے ابو بکرہ سے بھی سنا اور وہ ان چند آدمیوں میں سے ہیں جو طائف کے قلعے کی دیوار پر چڑھے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں حضرات نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جس نے دیدہ دانستہ خود کو اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے۔ ہشام نے کہا: ہمیں معمر نے عاصم سے بیان کیا کہ ان (عاصم) سے ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی نے کہا: میں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکرہ ؓ کو نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے (ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی سے) کہا: آپ کے ہاں تو دو ایسے شخص گواہی دے رہے ہیں جو تمہیں کافی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں کیونکہ ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص ؓ) تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4326]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے جب طائف کا محاصرہ کیا تو قلعے کے اندر ہی چند آدمیوں نے مشورہ کیا کہ ہم کیوں نہ مسلمان ہوجائیں، لیکن قلعے سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی۔
وہ دیوار پر چڑھے اور بکرہ، یعنی سیڑھی کے ذریعے قلعے سے باہرنکلے۔
یہ تحریک جس شخص نے برپا کی تھی وہ ابوبکرہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
ان کا اصل نام نفیع بن حارث ہے اور وہ ثقیف کے غلاموں میں سے ہیں۔

پہلی روایت میں قلعے سے نکلنے والوں کی تعداد مبہم تھی، دوسری روایت میں وضاحت کردی گئی کہ ان کی تعداد تئیس (23)
تھی۔
سب سے پہلے ابوبکرہ ؓ نیچے اترے، شارحین نے قلعے سے اترنے والوں کے نام بھی لکھے ہیں۔
ان میں زیاد کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کے شوہر ازرق بھی تھے۔
یہی وہی زیاد ہے جو بعد میں زیاد بن ابوسفیان کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ حضرت ابوبکرہ ؓ کا مادری بھائی تھا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب زیاد نے خود کو ابوسفیان ؓ کی طرف منسوب کیا تو ابوعثمان نہدی نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے کہا:
آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ پھر انھوں نے مذکورہ حدیث کا حوالہ دیا۔
ابوبکرہ ؓ نے کہا:
میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 219(63)

امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ حضرت ابوبکرہ ؓ ان اصحاب میں سے ہیں جو طائف کا قلعہ پھلانک کررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان غلاموں کو آزاد کردیا جو قلعے سے اترکر آپ کے پاس حاضر ہوئے تھے۔
(فتح الباري: 58/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4326