صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4333
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ الْتَقَى هَوَازِنُ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ، وَالطُّلَقَاءُ فَأَدْبَرُوا، قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَسَعْدَيْكَ، لَبَّيْكَ نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَعْطَى الطُّلَقَاءَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالُوا: فَدَعَاهُمْ، فَأَدْخَلَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ:" أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَاخْتَرْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد سمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عون نے، انہیں ہشام بن زید بن انس نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شروع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار فوج تھی۔ قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تھا پھر سب نے پیٹھ پھیر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا: اے انصاریو! انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ! آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہم حاضر ہیں۔ ہم آپ کے سامنے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کی ہار ہو گئی۔ جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد چھوڑ دیا تھا اور مہاجرین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا لیکن انصار کو کچھ نہیں دیا۔ اس پر انصار رضی اللہ عنہم نے اپنے غم کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں بلایا اور ایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں رہیں اور انصار دوسری گھاٹی میں رہیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4333  
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت ﷺ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4333   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4333  
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:

طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔

انصار کو رسول اللہ ﷺ نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4333