صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4335
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةَ حُنَيْنٍ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: مَا أَرَادَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے (جو منافق تھا) کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی خوشنودی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بدگو کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا پس انہوں نے صبر کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4335  
4335. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ حنین سے ملنے والے مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں رضائے الہٰی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف فی گئی، لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4335]
حدیث حاشیہ:
حضرت موسی ؑ کے مزاج میں شرم اور حیاتھی۔
وہ چھپ کر تنہا ئی میں نہایا کرتے تھے۔
بنی اسرائیل کو یہ شگوفہ ہاتھ آیا۔
کسی نے کہا کہ ان کے خصیے بڑھ گئے ہیں۔
کسی نے کہا، ان کو بر ص ہو گیا ہے۔
اس قسم کے بہتان لگانے شروع کئے۔
آخر اللہ تعالی نے ان کی پاکی اور بے عیبی ظاہر کردی۔
یہ قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے ﴿یاَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُو الَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوا مُوسی﴾ (الاحزاب: 69)
آخر تک۔
روایت میں جس منافق کا ذکر مذکور ہے۔
اس کم بخت نے اتنا غور نہیں کیا کہ دنیا کا مال ودولت اسباب سب پروردگار کی ملک ہیں جس پیغمبر کو اللہ تعالی نے اپنا رسول بنا کر دنیا میں بھیج دیا اس کو پورا اختیار ہے کہ جیسی مصلحت ہو اسی طرح دنیا کا مال تقسیم کرے۔
اللہ کی رضا مندی کا خیال جتنا اس کے پیغمبر کو ہوگا، اس کا عشر عشیر بھی اوروں کو نہیں ہو سکتا۔
بد باطن قسم کے لوگوں کا شیوہ ہی یہ رہاہے کہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام بازی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر کبھی نظر نہیں جاتی۔
سند میں حضرت سفیان ثوری کا نام آیا ہے۔
یہ کوفی ہیں اپنے زمانہ میں فقہ اور اجتہاد کے جامع تھے۔
خصوصاً علم حدیث میں مرجع تھے۔
ان کاثقہ، زاہد اور عابد ہونا مسلم ہے۔
ان کو اسلام کا قطب کہا گیا ہے۔
ائمہ مجتہدین میں ان کا شما ر ہے۔
سنہ 99 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 161 ھ میں بصرہ میں وفات پائی، حشرنا اللہ معهم آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4335