صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4336
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ آثَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا، أَعْطَى الْأَقْرَعَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى نَاسًا، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُرِيدَ بِهَذِهِ الْقِسْمَةِ وَجْهُ اللَّهِ، فَقُلْتُ: لَأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو بہت بہت جانور دئیے۔ چنانچہ اقرع بن حابس کو جن کا دل بہلانا منظور تھا، سو اونٹ دئیے۔ عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دئیے اور اسی طرح دوسرے اشراف عرب کو دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں کیا گیا۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے کہا کہ میں اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کروں گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ سنا تو فرمایا کہ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4336  
4336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے رویت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر کچھ لوگوں کو بہت جانور عطا فرمائے، چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دیے، دوسرے اشراف عرب کو بھی آپ نے اسی حساب سے دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں اس امر کی اطلاع نبی ﷺ کو ضرور دوں گا۔ جب آپ ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا لیکن انہوں نے صبر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4336]
حدیث حاشیہ:
صبر عجیب نعمت ہے پیغمبروں کی خصلت ہے۔
جس نے صبر کیا وہ کامیاب ہوا، آخر میں اس کا دشمن ذلیل وخوار ہوا۔
اللہ کا لاکھ بار شکر ہے کہ مجھ ناچیز کو بھی اپنی زندگی میں بہت سے خبیث النفس دشمنوں سے پالا پڑا۔
مگر صبر سے کام لیا، آخر وہ دشمن ہی ذلیل وخوار ہوئے۔
خد مت بخاری کے دوران بھی بہت سے حاسدین کی ہفوات پر صبر کیا۔
آخر اللہ کا لاکھوں لاکھ شکر جس نے اس خدمت کے لیے مجھ کو ہمت عطا فرمائی، والحمد للہ علی ذلك۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4336   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4336  
4336. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے رویت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر کچھ لوگوں کو بہت جانور عطا فرمائے، چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دیے، دوسرے اشراف عرب کو بھی آپ نے اسی حساب سے دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں اس امر کی اطلاع نبی ﷺ کو ضرور دوں گا۔ جب آپ ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: اللہ تعالٰی حضرت موسٰی ؑ پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا لیکن انہوں نے صبر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4336]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا قبیلہ عمرو بن عوف سے ایک منافق تھا جس کا نام معتب بن قشیر ہے، جبکہ بعض نے اس کا نام حرقوص بن زہیر بتایا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حرقوص کا واقعہ ابوسعید خدری ؓ کی بیان کردہ حدیث میں آگے آرہا ہے۔
(فتح الباري: 69/8)

اعتراض کرنے والے بدبخت نے اتنا بھی غور نہ کیا کہ دنیا کا مال ومتاع سب اللہ کی ملکیت ہے جس پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے اسے پورا پورا اختیار دیا ہے کہ مصلحت کے مطابق جس طرح چاہے اللہ کا مال تقسیم کرے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا جتنا خیال اس کے رسول کو ہوتا ہے، دوسروں کو دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔
بد باطن قسم کے لوگوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر ان کی نظر نہیں جاتی۔

واضح رہے کہ حضر ت موسیٰ ؑ بہت ہی شرمیلے تھے، وہ پردے میں رہ کر غسل کرتے تھے جبکہ بنی اسرائیل میں حیاداری کا مادہ نہیں تھا۔
انھوں نے موسیٰ ؑ پر تہمت لگائی کہ ان کے جسم پر برص ہے یا کسی دوسری موذی مرض میں مبتلا ہیں اورایسی باتوں سے حضرت موسیٰ ؑ کو تکلیف پہنچاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی باتوں سے بری قراردیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی باتوں سے بری قراردیا۔
" (الأحزاب: 69/33)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4336