صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
61. بَابُ بَعْثُ أَبِي مُوسَى وَمُعَاذٍ إِلَى الْيَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
حدیث نمبر: 4342
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا مُوسَى وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: وَبَعَثَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى مِخْلَافٍ، قَالَ: وَالْيَمَنُ مِخْلَافَانِ، ثُمَّ قَالَ:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا"، فَانْطَلَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى عَمَلِهِ، وَكَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِذَا سَارَ فِي أَرْضِهِ كَانَ قَرِيبًا مِنْ صَاحِبِهِ أَحْدَثَ بِهِ عَهْدًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَسَارَ مُعَاذٌ فِي أَرْضِهِ قَرِيبًا مِنْ صَاحِبِهِ أَبِي مُوسَى، فَجَاءَ يَسِيرُ عَلَى بَغْلَتِهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِ، وَإِذَا هُوَ جَالِسٌ، وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ قَدْ جُمِعَتْ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ، فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَيُّمَ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، قَالَ: لَا أَنْزِلُ حَتَّى يُقْتَلَ، قَالَ: إِنَّمَا جِيءَ بِهِ لِذَلِكَ، فَانْزِلْ، قَالَ: مَا أَنْزِلُ حَتَّى يُقْتَلَ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، كَيْفَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: أَتَفَوَّقُهُ تَفَوُّقًا، قَالَ: فَكَيْفَ تَقْرَأُ أَنْتَ يَا مُعَاذُ؟ قَالَ: أَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ، فَأَقُومُ وَقَدْ قَضَيْتُ جُزْئِي مِنَ النَّوْمِ، فَأَقْرَأُ مَا كَتَبَ اللَّهُ لِي، فَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِي كَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِي.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ دونوں صحابیوں کو اس کے ایک ایک صوبے میں بھیجا۔ راوی نے بیان کیا کہ یمن کے دو صوبے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دیکھو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، دشواریاں نہ پیدا کرنا، انہیں خوش کرنے کی کوشش کرنا، دین سے نفرت نہ دلانا۔ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو گئے۔ دونوں میں سے جب کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے دوسرے ساتھی کے پاس پہنچ جاتا تو ان سے تازی (ملاقات) کے لیے آتا اور سلام کرتا۔ ایک مرتبہ معاذ رضی اللہ عنہ اپنے علاقہ میں اپنے صاحب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچ گئے اور اپنے خچر پر ان سے ملاقات کے لیے چلے۔ جب ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں اور ایک شخص ان کے سامنے ہے جس کی مشکیں کسی ہوئی ہیں۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: اے عبداللہ بن قیس! یہ کیا واقعہ ہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ یہ شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر جب تک اسے قتل نہ کر دیا جائے میں اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قتل کرنے ہی کے لیے اسے یہاں لایا گیا ہے۔ آپ اتر جائیں لیکن انہوں نے اب بھی یہی کہا کہ جب تک اسے قتل نہ کیا جائے گا میں نہ اتروں گا۔ آخر موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ تب وہ اپنی سواری سے اترے اور پوچھا، عبداللہ! آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں تو تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں پھر انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ معاذ! آپ قرآن مجید کس طرح پڑھتے ہیں؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو رات کے شروع میں سوتا ہوں پھر اپنی نیند کا ایک حصہ پورا کر کے میں اٹھ بیٹھتا ہوں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے مقدر کر رکھا ہے اس میں قرآن مجید پڑھتا ہوں۔ اس طرح بیداری میں جس ثواب کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں سونے کی حالت کے ثواب کا بھی اس سے اسی طرح امیدوار رہتا ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4342  
4342. حضرت ابو بردہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو موسٰی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ہر ایک یمن کی الگ الگ ولایت میں تعینات فرمایا۔ اس وقت یمن دو ولایات پر مشتمل تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: لوگوں پر آسانی کرنا، سختی سے کام نہ لینا، انہیں خوش رکھنا، نفرت نہ دلانا۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک اپنے کام پر روانہ ہوا۔ ان میں سے جو کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے ساتھی کے قریب آ جاتا تو اس سے ضرور ملاقات کرتا اور اسے سلام کر کے مزاج پرسی کرتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے قریب پہنچ گئے تو وہ اپنے خچر پر سور ہو کر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4342]
حدیث حاشیہ:
حضرت معاذ ؓ کا یہ کما ل جوش ایمان تھا کہ مرتد کو دیکھ کر فوراً ان کو وہ حدیث یاد آگئی جس میں آ نحضرت نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام سے پھر جائے اسے قتل کر دو۔
حضرت معاذ ؓ نے جب تک شریعت کی حد جاری نہیں ہوئی، اس وقت تک ابوموسی ؓ کے پاس اتر نا اور ٹھہرنا بھی منا سب نہ سمجھا۔
یمن کے بلند حصے پر معاذ ؓ کو حاکم بنا یا گیاتھا اور نشیبی علاقہ ابو موسی ؓ کو دیا گیا تھا۔
رسول کریم ﷺ نے ملک یمن کی بہت تعریف فرمائی۔
جس کی بر کت ہے کہ وہاں بڑے بڑے عالم فاضل محدث پیدا ہوئے۔
حضرت علامہ شوکا نی یمنی مشہور اہلحدیث عالم یمنی ہیں جن کی حدیث کی شرح کی کتاب نیل الاوطار مشہور ہے۔
یا اللہ! میں ان بزرگوں سے خاص عقیدت ومحبت رکھتا ہوں، ان کے ساتھ مجھ کو جمع فرمائیو، آمین۔
یارب العالمین۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4342   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4342  
4342. حضرت ابو بردہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو موسٰی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ہر ایک یمن کی الگ الگ ولایت میں تعینات فرمایا۔ اس وقت یمن دو ولایات پر مشتمل تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: لوگوں پر آسانی کرنا، سختی سے کام نہ لینا، انہیں خوش رکھنا، نفرت نہ دلانا۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک اپنے کام پر روانہ ہوا۔ ان میں سے جو کوئی اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے اپنے ساتھی کے قریب آ جاتا تو اس سے ضرور ملاقات کرتا اور اسے سلام کر کے مزاج پرسی کرتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اپنے علاقے کا دورہ کرتے کرتے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کے قریب پہنچ گئے تو وہ اپنے خچر پر سور ہو کر حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4342]
حدیث حاشیہ:

(مِخلَاف)
، خلیفہ کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔
یہاں مراد یمن کے دوحصے ہیں۔
ایک عدن کی جانب پہاڑی کے اوپر والا حصہ اسے مخلافِ اعلیٰ کہا جاتا تھا۔
اس کے حاکم معاذ بن جبل ؓ تھے۔
دوسراحصہ پہاڑ کے نشیب میں اسے مخلافِ اسفل کہا جاتا۔
اس علاقے کاانتظام حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ذمے تھا۔

یمن میں یہودیوں نے یہ طریقہ اختیار کیاتھاکہ اسلام میں داخل ہوکر پھر مرتد ہوجاتے تھے جس سے ان کا مقصد اسلام سے لوگوں کو متنفر کرناتھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ مرتد ہونے والا یہودی تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4344۔
4345)

اگرچہ دین میں داخل ہونے کے لیے کوئی جبر نہیں، تاہم داخل ہونے کے بعد جو اس کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزادی جاتی ہے، چنانچہ اسلام میں مرتد ہونے کی سزا قتل ہے۔

حضرت معاذ بن جبل ؓ کا یہ کمال ایمان تھا کہ مرتد کو دیکھتے ہی انھیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد آگئی کہ جو اسلام سے مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔
جب تک شریعت کی حد جاری نہ ہوئی اس وقت تک انھوں نےاپنی سواری سے اترنا گوارا نہ کیا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادات میں طاقت اور ہمت حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائےگا وہ باعث ثواب ہے، ایسے حالات میں سونے، کھانے اور آرام کرنے میں بھی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے۔
(فتح الباري: 77/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4342