صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
61. بَابُ بَعْثُ أَبِي مُوسَى وَمُعَاذٍ إِلَى الْيَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
حدیث نمبر: 4346
حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ هُوَ النَّرْسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَائِذٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِهَابٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَرْضِ قَوْمِي، فَجِئْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنِيخٌ بِالْأَبْطَحِ، فَقَالَ:" أَحَجَجْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟" قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" كَيْفَ؟" قُلْتَ: قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ إِهْلَالًا كَإِهْلَالِكَ، قَالَ:" فَهَلْ سُقْتَ مَعَكَ هَدْيًا؟" قُلْتُ: لَمْ أَسُقْ، قَالَ:" فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَاسْعَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ"، فَفَعَلْتُ حَتَّى مَشَطَتْ لِي امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ بَنِي قَيْسٍ وَمَكُثْنَا بِذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ.
ہم سے عباس بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ایوب بن عائذ نے، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، کہا میں نے طارق بن شہاب سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قوم کے وطن (یمن) میں بھیجا۔ پھر میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ کی) وادی ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم نے حج کا احرام باندھا لیا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! آپ نے دریافت فرمایا کہ کلمات احرام کس طرح کہے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا (کہ یوں کلمات ادا کئے ہیں) اے اللہ میں حاضر ہوں، اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے، میں نے بھی اسی طرح باندھا ہے۔ فرمایا تم اپنے ساتھ قربانی کا جانور بھی لائے ہو؟ میں نے کہا کہ کوئی جانور تو میں اپنے ساتھ نہیں لایا۔ فرمایا تم پھر پہلے بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر لو۔ ان رکنوں کی ادائیگی کے بعد حلال ہو جانا۔ میں نے اسی طرح کیا اور بنو قیس کی خاتون نے میرے سر میں کنگھا کیا اور اسی قاعدے پر ہم اس وقت تک چلتے رہے جب تک عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے (اسی کو حج تمتع کہتے ہیں اور یہ بھی سنت ہے)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4346  
4346. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے میری قوم کے وطن میں بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ وادی بطحاء (خیف بنو کنانہ) میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم نے حج کا احرام باندھ لیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: نیت کیا کی تھی؟ میں نے عرض کی: یوں کہا تھا کہ میں حاضر ہوں اور جس طرح آپ نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی طرح باندھا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا تم اپنے ساتھ قربانی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا: میں اپنے ساتھ کوئی جانور نہیں لایا۔ آپ نے فرمایا: تم پہلے بیت اللہ کا طواف کرو، پھر صفا اور مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے آزاد ہو جاؤ۔ بہرحال میں نے اس طرح کیا۔ پھر بنو قیس کی خاتون نے میرے سر میں کنگھی کی۔ ہم اسی قاعدے کے مطابق حج کرتے رہے حتی کہ حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4346]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے 9ہجری میں حاکم بنا کر یمن بھیجا تھا اورحجۃ الوداع 10 ہجری میں ہوا۔

رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے تمام عرب میں اعلان کردیا تھا کہ احکام حج سیکھنے کے لیے سب لوگ جمع ہوں اور تمام گورنروں کو بھی یہی حکم تھا۔
اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے تو انھوں نے احرام باندھتے وقت یہ نیت کی تھی کہ جو احرام رسول اللہ ﷺ کا ہے وہی میراہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ قربانی کا جانور تھ اور آپ نے حج قرآن کی نیت کی تھی جبکہ حضر ت ابوموسیٰ ؓ اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔
اس لیے آپ نے انھیں عمرہ کرکے احرام کھول دینے کا حکم دیا اور حج تمتع کرنے کی تلقین کی۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے دورخلافت میں حج تمتع سے منع کردیاتھا۔
اس کی تفصیل کتاب الحج میں آچکی ہے۔

اس مقام پر اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ان کی قوم کے ملک میں گورنربنا کر روانہ کیا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4346