الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
135. بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ
حسن اخلاق کا بیان
حدیث نمبر: 272
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ الْهَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”أُخْبِرُكُمْ بِأَحَبِّكُمْ إِلَيَّ، وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ‏؟“‏ فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، قَالَ الْقَوْمُ‏:‏ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ‏:‏ ”أَحْسَنُكُمْ خُلُقًا‏.‏“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں اس شخص کے متعلق بتاؤں جو تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت تم میں سے مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا؟ لوگ خاموش ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ اپنی بات دہرائی۔ لوگوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا اخلاق تم میں سب سے اچھا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 6735 و ابن حبان: 235/2 و الخرائطي فى مكارم الاخلاق: 26 و البيهقي فى الشعب: 358/10 و رواه الترمذي: 2018 - من حديث جابر الصحيحة: 791»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 272  
1
فوائد ومسائل:
(۱)حسن اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ انسان باحیا ہو۔ بے حیا انسان اور بے ہودہ گوئی کرنے والا اچھے اخلاق کا مالک نہیں ہوسکتا اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان عیوب سے پاک تھے۔
(۲) کسی شخص سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور روز قیامت بھی اسے آپ کا قرب نصیب ہو اور دنیا و آخرت میں وہ سب سے اچھا انسان ہو، اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایسا صرف حسن اخلاق سے ممکن ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز روزہ اور دیگر حقوق اللہ سے غفلت برتتا ہے لیکن اس کا اخلاق اچھا ہے تو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کی عظمت اور وقار کا لحاظ نہیں رکھتا تو وہ کیسے اچھے اخلاق کا مالک ہوسکتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 272