الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
136. بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ
دلی سخاوت کا بیان
حدیث نمبر: 276
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری کثرت مال کا نام نہیں بلکہ مال داری نفس کی مالداری ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الرقاق، باب الغنى غنى النفس: 6446 و مسلم: 1051 و الترمذي: 2373 و ابن ماجه: 4137»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 276  
1
فوائد ومسائل:
عمومی طور پر جس شخص کو مال ملتا ہے وہ بخل کا شکار ہو جاتا ہے اور مال کی محبت اس کے دل میں گھر کر جاتی ہے اور مال کا جو مقصد ہے کہ انسان مطمئن اور پرسکون زندگی گزارے اس سے بھی وہ محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دل میں ہر وقت مال ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ بے چینی کی زندگی گزارتا ہے۔ نیز زیادہ کمانے کی حرص اور لالچ میں اس کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جسے دل کی سخاوت حاصل ہو اور مال کی محبت اس کے دل میں نہ ہو اسے مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے اور نہ ملے تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور اس کی طلب میں ہلکان نہیں ہوتا۔ نیز وہ نہ ملنے پر حزن و ملال اور افسوس کا اظہار بھی نہیں کرتا بلکہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے۔ اس طرح وہ پرسکون رہتا ہے تو گویا اصل غنی یہ شخص ہے نہ کہ وہ جس کے سر پر ہر وقت تلوار لٹکی رہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 276