صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
66. بَابُ غَزْوَةُ سِيفِ الْبَحْرِ:
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4361
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: الَّذِي حَفِظْنَاهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، فَسُمِّيَ ذَلِكَ الْجَيْشُ جَيْشَ الْخَبَطِ، فَأَلْقَى لَنَا الْبَحْرُ دَابَّةً، يُقَالُ لَهَا: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ حَتَّى ثَابَتْ إِلَيْنَا أَجْسَامُنَا، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَنَصَبَهُ فَعَمَدَ إِلَى أَطْوَلِ رَجُلٍ مَعَهُ، قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَنَصَبَهُ وَأَخَذَ رَجُلًا وَبَعِيرًا فَمَرَّ تَحْتَهُ، قَالَ جَابِرٌ: وَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ إِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ نَهَاهُ، وَكَانَ عَمْرٌو يَقُولُ: أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ، أَنَّ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ لِأَبِيهِ: كُنْتُ فِي الْجَيْشِ، فَجَاعُوا، قَالَ: انْحَرْ، قَالَ: نَحَرْتُ، قَالَ: ثُمَّ جَاعُوا، قَالَ: انْحَرْ، قَالَ: نَحَرْتُ، قَالَ: ثُمَّ جَاعُوا، قَالَ: انْحَرْ، قَالَ: نَحَرْتُ، ثُمَّ جَاعُوا، قَالَ: انْحَرْ، قَالَ: نُهِيتُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے عمرو بن دینار سے جو یاد کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ تاکہ ہم قریش کے قافلہ تجارت کی تلاش میں رہیں۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ دن تک پڑاؤ ڈالے رہے۔ ہمیں (اس سفر میں) بڑی سخت بھوک اور فاقے کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم نے ببول کے پتے کھا کر وقت گذارا۔ اسی لیے اس فوج کا لقب پتوں کی فوج ہو گیا۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک مچھلی جیسا جانور ساحل پر پھینک دیا، اس کا نام عنبر تھا، ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر (اپنے جسموں پر) ملا۔ اس سے ہمارے بدن کی طاقت و قوت پھر لوٹ آئی۔ بعد میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی نکال کر کھڑی کروائی اور جو لشکر میں سب سے لمبے آدمی تھے، انہیں اس کے نیچے سے گزارا۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا کہ ایک پسلی نکال کر کھڑی کر دی اور ایک شخص کو اونٹ پر سوار کرایا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لشکر کے ایک آدمی نے پہلے تین اونٹ ذبح کئے پھر تین اونٹ ذبح کئے اور جب تیسری مرتبہ تین اونٹ ذبح کئے تو ابوعبیدہ نے انہیں روک دیا کیونکہ اگر سب اونٹ ذبح کر دیتے تو سفر کیسے ہوتا اور عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ ہم کو ابوصالح ذکوان نے خبر دی کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے (واپس آ کر) اپنے والد (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) سے کہا کہ میں بھی لشکر میں تھا جب لوگوں کو بھوک لگی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ذبح کر دیا کہا کہ پھر بھوکے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، بیان کیا کہ جب پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، میں نے ذبح کیا، پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو، پھر قیس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس مرتبہ مجھے امیر لشکر کی طرف سے منع کر دیا گیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4361  
4361. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم تین سو (300) سواروں کو بھیجا اور ہمارا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ ہم قریش کے قافلے کا انتظار کرتے تھے۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ (15) دن تک پڑاؤ ڈالے رہے۔ ہمیں اس دوران میں سخت بھوک اور قافلے کا سامان کرنا پڑا۔ نوبت بایں جا رسید کہ ہم نے کیکر کے پتے کھا کر وقت پاس کیا، اس لیے اس لشکر کو "کیکر کے پتے کھانے والا لشکر" کہا جاتا ہے۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک جانور کنارے پر پھینک دیا اس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر جسموں پر ملا تو ہمارے جسم موٹے اور قوی ہو گئے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اسے کھڑا کیا۔ پھر لشکر سے جو طویل تر آدمی تھا اسے نیچے سے گزارا۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4361]
حدیث حاشیہ:
بعد میں یہ سو چا گیا کہ اگر اونٹ سارے اس طرح ذبح کردئےے گئے تو پھر سفر کیسے ہوگا۔
لہذا اونٹوں کاذبح کرنابند کر دیا گیامگر اللہ نے مچھلی کے ذریعہ لشکر کی خوراک کا انتظام کردیا۔
﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4361   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4361  
4361. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم تین سو (300) سواروں کو بھیجا اور ہمارا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ ہم قریش کے قافلے کا انتظار کرتے تھے۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ (15) دن تک پڑاؤ ڈالے رہے۔ ہمیں اس دوران میں سخت بھوک اور قافلے کا سامان کرنا پڑا۔ نوبت بایں جا رسید کہ ہم نے کیکر کے پتے کھا کر وقت پاس کیا، اس لیے اس لشکر کو "کیکر کے پتے کھانے والا لشکر" کہا جاتا ہے۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک جانور کنارے پر پھینک دیا اس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر جسموں پر ملا تو ہمارے جسم موٹے اور قوی ہو گئے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اسے کھڑا کیا۔ پھر لشکر سے جو طویل تر آدمی تھا اسے نیچے سے گزارا۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4361]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت قیس بن سعد ؓ نے جب لوگوں کی بھوک دیکھی تو کہنے لگے:
کوئی ہے جو مجھے یہاں اونٹ دے دے،میں مدینے پہنچ کر کھجوروں سے اس کی ادائیگی کردوں گا؟ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے کہا کہ تو کون ہے؟ انھوں نے اپنا نسب بیان کیا تو جہنی نے کہا:
میں نے تجھے پہچان لیا ہے، پھرانھوں نے پانچ اونٹ پانچ وسق کھجور کے بدلے خرید لیے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت نے اس کے لیے گواہی بھی دی لیکن حضرت عمر ؓ نے انھیں روک دیا کیونکہ حضرت قیس بن سعد ؓ کا اپنا کوئی مال نہیں تھا۔
ایک اعرابی نے طعنہ دیا کہ کیا باپ اپنے بیٹے کے لیے چند وسق کھجوروں کی قربانی نہیں دے سکتا؟ یہ طعنہ سن کر ان کے باپ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے انھیں چار باغ ہبہ کردیے۔
ہرایک باغ سے کم از کم پچاس وسق کھجوریں پیدا ہوتی تھیں۔
جب اس مہم سے فارغ ہوکر مدینہ طیبہ آئے اور رسول اللہ ﷺ سے حضرت قیس ؓ کی سخاوت کا ذکر ہوا توآپ نے فرمایا:
سخاوت تو اس گھرانے کا طرہ امتیاز ہے۔
(فتح الباری: 102/8)

بہرحال اس حدیث میں حضرت قیس بن سعدبن عبادہ ؓ کی فیاضی اوردریا دلی کا بیان ہے جنھوں نے ایسے حالات میں متعدد اونٹ ذبح کرکے لشکر کوکھلائے، بالآخر امیر لشکر نے انھیں منع کردیا کہ کہیں ایس نہ ہواونٹ ختم ہی ہوجائیں اور دوران سفر میں دشواری پیش آئے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4361