صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
38. بَابُ دَفْنِ النُّخَامَةِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں بلغم کو مٹی کے اندر چھپا دینا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 416
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَبْصُقْ أَمَامَهُ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي اللَّهَ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، فَإِنَّ عَنْ يَمِينِهِ مَلَكًا، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ فَيَدْفِنُهَا".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبدالرزاق نے معمر بن راشد سے، انہوں نے ہمام بن منبہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ جب تک اپنی نماز کی جگہ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اور دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس طرف فرشتہ ہوتا ہے، ہاں بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے مٹی میں چھپا دے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 310  
´کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف تھوکے، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے نہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے میں اس طرح تھوکا ہے اور اسے مل دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 310]
310۔ اردو حاشیہ:
➊ سامنے تھوکنا تو عام حالات میں بھی قبیح ہے۔ نماز میں تو انسان اپنے مالک حقیقی سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یوں سمجھے کہ اللہ تعالیٰ سامنے ہے، لہٰذا سامنے تھوکنا تو سخت گستاخی اور بدتہذیبی ہے۔
➋ دائیں طرف تھوکنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ دائیں طرف فرشتۂ رحمت ہوتا ہے۔
➌ بائیں طرف اس وقت تھوک سکتا ہے جب وہاں کوئی موجود نہ ہو ورنہ وہ اس کی دائیں جانب ہو گی۔ پاؤں کے نیچے بھی تب تھوک سکتا ہے جب مٹی یا ریت پر کھڑا ہو۔ اگر فرش ہے یا صف وغیرہ بچھی ہے تو نیچے تھوکنا بھی منع ہے۔ اس وقت صرف آخری طریقہ قابل عمل ہگا، یعنی کپڑے میں تھوکنے کا، جس کی طرف ورنہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے۔
➍ ورنہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بیان کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ ورنہ ایسے کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا۔ آج کل کپڑے کے بجائے ٹشو پیپر کا استعمال بہت مناسب بدل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 310   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث761  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 761]
اردو حاشہ:
(1)
مسجد کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔

(2)
ایسی حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے جو مسجد کی صفائی کے منافی ہوں۔

(3)
اگر مسجد کی زمین کچی ہو اور اس پر چٹائی وغیرہ بچھی ہوئی نہ ہو تو پاؤں کے نیچا تھوکنا جائز ہے کیونکہ پاؤں سے رگڑے جانے پر وہ زمین میں جذب ہو جائے گا۔

(4)
بائیں طرف تھوکنا اس وقت جائز ہے جب اس طرف کوئی دوسرا نمازی نہ ہو ورنہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔

(5)
پختہ فرش پر اور چٹائی اور قالین پر تھوکنا جائز نہیں کیونکہ یہ صفائی کے منافی ہے، البتہ رومال وغیرہ میں تھوک سکتا ہے۔
اگر نماز میں مشغول نہ ہو تو وضو کی جگہ جا کر اس قسم کی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔

(6)
سفر وغیرہ میں آج کل بھی یہ صورت پیش آ سکتی ہے کہ کوئی انسان کھلی جگہ میں نماز پڑھ لے جب کہ کوئی مسجد قریب نہ ہو۔
اس صورت میں اگر زمین پر کوئی کپڑا نہیں بچھایا گیا تو زیر مطالعہ حدیث کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔

(7)
رسول اللہﷺ کا اپنے ہاتھ سے دیوار صاف کردینا اعلی اخلاق اور تواضع کی بہترین مثال ہے کیونکہ آپ ﷺنے اس غلطی کا ارتکاب کرنے والے کا تعین کرنا یا اس سے مخاطب ہونا مناسب نہیں سمجھا۔
نبیﷺ کے خود صفائی کردینے سے دیکھنے والوں کو اور خود غلطی کرنے والے کو یقیناً زبردست تنبیہ ہوگئی۔

(8)
چونکہ دیوار کچی تھی اس لیے صفائی کے لیے کنکری سے کھرچ دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 761   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:416  
416. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ اپنے آگے نہ تھوکے کیونکہ جب تک وہ اپنی جاے نماز میں ہے، اللہ تعالیٰ سے مناجات کر رہا ہے،اور نہ اپنی دائیں جانب ہی اسے پھینکے کیونکہ اس کی دائیں جانب ایک فرشتہ ہے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے، پھر اسے دفن کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:416]
حدیث حاشیہ:

سابقہ احادیث میں تھوکنے کی ممانعت کے کئی اسباب بیان ہوئے ہیں۔
ان میں سبب اعظم اللہ تعالیٰ اور نمازی کے درمیان مواجہت کا احترام ہے۔
باقی تمام اسباب اس کے تحت آتے ہیں، اسباب حسب ذیل ہیں۔
نمازی کی اللہ تعالیٰ سے مناجات۔
اللہ تعالیٰ کا بحالت نماز قبلے اور نمازی کے درمیان ہونا۔
احترام قبلہ۔
دیوار قبلہ کی تلویث۔
اللہ اور اس کے رسول کی ایذا رسانی
نمازیوں کا احترام۔
دائیں جانب متعین فرشتے کا احترام۔
تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اجازت صرف اضطرار اور مجبوری کی حالت میں ہے۔

امام بخاری ؒ نے عنوان میں مسجد کی قید ذکر کی ہے، جبکہ حدیث میں مسجد کا ذکر نہیں ہے؟آپ کا استدلال نماز کے لیے کھڑا ہونے کے لفظ سے ہے، لیکن ان الفاظ سے عموم سمجھا جاتا ہے، یعنی مسجد میں نماز کے لیے کھڑا ہویا مسجد کے علاوہ باہر کسی دوسرے مقام پر، ہر وقت یہ پابندی ضروری ہے۔
پھر آپ نے قبل ازیں کفارے کا ذکر کیا تھا اور اس مقام پر صرف دفن کر دینے پر اکتفا کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ دو حالتوں کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔
ایک یہ کہ انسان دانستہ طور پر مسجد میں بلا وجہ تھوکنے کی حرکت کرتا ہے تو یہ گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ہے۔
دوسری حالت یہ ہے کہ انسان مجبوراً ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کی تلافی اس باب میں بیان کی ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے یا کسی چیز سے اسے دور کردیا جائے۔
(فتح الباري: 663/1)

اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت نماز تھوکنے کی ممانعت ہے، جبکہ ایذائے مسلم کا تقاضا ہے کہ یہ ممانعت مطلق طور پر ہے، خواہ نماز پڑھ رہا ہو یا نماز کے علاوہ مسجد میں موجود ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تھوکنے سے ممانعت کے کئی ایک مراتب ہیں، یعنی مسجد میں مطلق طور پرتھوکنا سنگین جرم ہے، لیکن دیوار قبلہ پر تھوکنا اس سے زیادہ سنگین ہے، پھر بحالت نماز قبلے کی طرف تھوکنا انتہائی بے ادبی اور گھناؤنا جرم ہے۔
(فتح الباري: 664/1)

دفن کر دینے کا مفہوم یہ نہیں کہ اس پر معمولی سی مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا جائے, کیونکہ ایسا کرنے سے اگر کوئی وہاں بیٹھتا ہے تو مزید گندگی پھیلنے کا اندیشہ ہے, بلکہ دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زمین کھود کر تھوک کو اس کے اندر دبا دیا جائے, پھر زمین کو ہموار کردیا جائے۔
یہ اس صورت میں ہےجب زمین کچی ہو۔
اگر پختہ زمین پر تھوکنے کی نوبت آجائے تو دفن کرنے کے بجائے اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے اور مسجد کے فرش کو صاف کر کے وہاں خوشبو وغیرہ لگا دی جائے تاکہ کسی قسم کی ناگواری نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 416