الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
251. بَابُ الْكِبْرِ
تکبر کا بیان
حدیث نمبر: 555
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ‏:‏ لَمْ يَكُنْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَحَزِّقِينَ، وَلاَ مُتَمَاوِتِينَ، وَكَانُوا يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَيَذْكُرُونَ أَمْرَ جَاهِلِيَّتِهِمْ، فَإِذَا أُرِيدَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ اللهِ، دَارَتْ حَمَالِيقُ عَيْنَيْهِ كَأَنَّهُ مَجْنُونٌ‏.‏
حضرت سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام مریل اور مردہ دل نہیں تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھا کرتے تھے، اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا تذکرہ بھی کرتے، لیکن جب ان سے اللہ کے دین کے خلاف کوئی بات کہی جاتی تو ان کی آنکھوں کے ڈھیلے گھومنے لگتے گویا کہ وہ مجنوں ہے۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى الدنيا فى منازل الأشراف: 186 و أحمد فى الزهد: 1200 و ابن أبى شيبة: 26058 - انظر الصحيحة: 434»

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 555  
1
فوائد ومسائل:
(۱)مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بناوٹی تقوی نہیں تھا۔ اور نہ ہی وہ ہر وقت مریل شکل بنائے رکھتے تھے کہ گویا ان پر فکر آخرت سوار ہے۔ بلکہ وہ زندہ دل تھے۔ اکٹھے رہتے اور مجلسیں بھی جمتیں۔ زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی زیر بحث آتیں اور شعر و شاعری بھی ہوتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر اخلاقی یا دین کے مخالف کوئی گفتگو کرتے بلکہ دینی غیرت کا اور تقوے کا حال یہ تھا کہ اگر خلاف شرع کوئی بات کر دیتا یا دین کا مذاق اڑانا چاہتا تو یک دم ان کی کیفیت بدل جاتی اور آنکھیں اس قدر سرخ ہو جاتیں گویا کوئی دیوانگی در آئی ہو۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ خود ساختہ تقوی اپنے اوپر سوار کیے رکھنا اور بات چیت نہ کرنا اور خود کو بہت نیک ظاہر کرنا جب کہ باطن ایسا نہ ہو، یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 555