صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
73. بَابُ قِصَّةُ أَهْلِ نَجْرَانَ:
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4382
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر امت میں امین (امانتدار) ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4382  
4382. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4382]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی، سنایا پھر انہوں نے نہیں مانا آخر آپ نے فرمایا کہ آؤ ہم تم مباہلہ کرلیں یعنی دونوں فریق مل کر اللہ سے دعا کریں کہ یا اللہ! جو ہم میں سے ناحق پر ہو اس پر اپنا عذاب نازل کر۔
وہ مبا ہلہ کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے بلکہ اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ ہزار جوڑے کپڑے رجب میں اور ہزار جوڑے صفر میں دیا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گے۔
قرآن کی آیت ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4382   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4382  
4382. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4382]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث اس لیے بیان کی ہے کہ اس کا سبب درود حضرت حذیفہ ؓ سے مروی حدیث ہے ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران کی طرف حضرت علی ؓ کو بھیجا تھا تاکہ ان سے صدقات یا جزیہ وغیرہ وصول کر کے لائیں۔
(زاد المعاد: 557/3)
ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بھیجا ہو تا کہ ان سے صلح کا معاوضہ وصول کر کے لائیں، اس کے بعد حضرت علی ؓ کو روانہ کیا تاکہ جو عیسائی اپنے دین پر قائم ہیں ان سے جزیہ وصول کریں اور جو مسلمان ہو چکے ہیں ان سے صدقہ اور زکاۃ وغیرہ وصول کر کے لائیں۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ فریق مخالف اگر دلائل حقہ کو نہ مانے بلکہ ان کا انکار کر دے تو اس سے مباہلہ کرنا مشروع ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے ایک حریف کومباہلے کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت کے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مباہلہ کرنے والا باطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا تھا، وہ دوماہ کے اندر اندر ہلاک ہو گیا تھا۔
(فتح الباري: 119/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4382