صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
75. بَابُ قُدُومُ الأَشْعَرِيِّينَ وَأَهْلِ الْيَمَنِ:
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4389
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْفِتْنَةُ هَا هُنَا هَا هُنَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابن بلال نے، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوالغیث (سالم) نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یمن کا ہے اور فتنہ (دین کی خرابی) ادھر سے ہے اور ادھر ہی سے شیطان کے سر کا کونا نمودار ہو گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3935  
´یمن کی فضیلت کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3935]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بقول بعض آپ ﷺ نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے،
اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں،
یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے،
نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں،
نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا،
جبکہ دیگرعلاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی،
اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3935