صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
78. بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
حدیث نمبر: 4414
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ:" أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے عبداللہ بن یزید خطمی نے اور انہیں ابوایوب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھی تھیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 328  
´مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرنا`
«. . . وبه عن عدي بن ثابت الانصاري ان عبدالله بن يزيد الخطم اخبره ان ابا ايوب الانصاري اخبره انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع المغرب والعشاء بالمزدلفة جميعا . . . .»
. . . سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 328]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 4414، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج کے دن عرفات میں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی چاہئے بلکہ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھنی چاہئیں۔ یہی سنت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں اکٹھی کر کے مزدلفہ میں پڑھتے تھے۔
➌ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 190، البخاري 139، ومسلم 1280]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 488   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 606  
´مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کرنے کا بیان۔`
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 606]
606 ۔ اردو حاشیہ: مغرب کا وقت عرفات میں ہو جاتا ہے مگر شریعت کا حکم ہے کہ مغرب کی نماز مزدلفہ میں پڑھی جائے نہ کہ عرفات میں، اور مزدلفہ پہنچتے پہنچتے لامحالہ عشاء کا وقت ہو جاتا ہے، اس لیے یہ دونوں نمازیں عشاء کے وقت میں اکٹھی پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 606   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4414  
4414. حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی تھیں، یعنی ان دونوں کو جمع کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4414]
حدیث حاشیہ:
جملہ احادیث مذکورہ میں کسی نہ کسی طرح سے حجۃ الوداع کا ذکر آیا ہے۔
اس لیے حضرت امام ؒ نے ان احادیث کو یہاں نقل فرمایا جو ان کے کمال اجتہاد کی دلیل ہے۔
ویسے ہرہر حدیث سے بہت سے مسائل کا اثبات ہوتا ہے۔
اسی لیے ان میں اکثر احادیث کئی بابوں کے تحت مذکور ہوئی ہیں جیسا کہ بغور مطالعہ کرنے والے حضرات پر خود روشن ہو سکے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4414   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4414  
4414. حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی تھیں، یعنی ان دونوں کو جمع کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4414]
حدیث حاشیہ:
ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو میدان عرفات میں ظہر وعصر جمع تقدیم سے ادا کی جاتی ہیں، یعنی ظہر کے وقت عصر پڑھ لی جاتی ہے اور مزدلفہ میں مغرب اورعشاء جمع تاخیر سے پڑھی جاتی ہیں، یعنی عشاء کے وقت مغرب ادا کی جاتی ہے۔
ایسا کرنا سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ مناسک حج سے ہے۔
واضح رہے کہ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی طرح حجۃ الوداع کا ذکر آیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
ویسے حضرت امام نے ان احادیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے جو امام صاحب کے مجتہد ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4414