صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
79. بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
حدیث نمبر: 4415
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ لَهُمْ، إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهِيَ غَزْوَةُ تَبُوكَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلَا أَشْعُرُ، وَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلَالًا يُنَادِي: أَيْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوكَ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ، وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ، ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ، فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ: إِنَّ اللَّهَ، أَوْ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، فَارْكَبُوهُنَّ"، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِمْ بِهِنَّ، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ، فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوْا الَّذِينَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْعَهُ إِيَّاهُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ، فَحَدَّثُوهُمْ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى.
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کر سکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہو جاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6678  
´ملک حاصل ہونے سے پہلے یا گناہ کی بات کے لیے یا غصہ کی حالت میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ"، وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ:" انْطَلِقْ إِلَى أَصْحَابِكَ، فَقُلْ:" إِنَّ اللَّهَ، أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْمِلُكُمْ . . .»
. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری کے جانور مانگنے کے لیے بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے کوئی سواری کا جانور نہیں دے سکتا (کیونکہ موجود نہیں ہیں) جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ کچھ خفگی میں تھے۔ پھر جب دوبارہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھیوں کے پاس جا اور کہہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا (یہ کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے سواری کا انتظام کر دیا۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 6678]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6678کا باب: «بَابُ الْيَمِينِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَفِي الْمَعْصِيَةِ، وَفِي الْغَضَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کو ظاہر فرمایا کہ ملکیت سے قبل غصہ کی حالت میں قسم کھا لے تو اس کا کیا کفارہ ہو گا؟ اور اگر وہ چیز بعد میں ملکیت میں داخل ہو جائے تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہو گا؟ تحت الباب حدیث میں سواریاں دینے کی قسم کا ذکر فرمایا ہے، اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی تو اس وقت سواریاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک میں نہ تھیں، جب ملک میں آئیں اس وقت دینے سے نہ قسم ٹوٹی اور نہ کفارہ لازم ہوا، اس حدیث سے غصہ کی حالت میں قسم کھا لینے کی بھی مثال ہو سکتی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و الذى يظهر أن البخاري قصد غير هذا و هو أن النبى صلى الله عليه وسلم حلف أن لا يحملهم فلما حملهم راجعوه فى يمينه فقال: ما أنا حملتكم ولكنا الله حملكم، فبين أن يمينه انما انعقدت فيما يملك فلو حملهم على ما يملك لحنت و كفّر.» (1)
جو بات ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد یہ نہیں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ انہیں سواریاں نہ دیں گے، پھر جب عطا کیں تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم یاد دلائی تو فرمایا: یہ میں نے تمہیں سوار نہیں کرایا، بلکہ اللہ تعالی نے سوار کرایا ہے، تو بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک سے ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ملک کی سواریوں پر انہیں سوار کرتے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حانث ہو جاتے اور کفارہ ادا کرتے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف اٹھایا تھا کہ میں آپ کو سواری نہیں دوں گا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سواری عطا فرمائی تو اپنے یمین میں ان کو لوٹایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سواریاں میں نے آپ کو نہیں دیں، بلکہ اللہ تعالی نے دی ہیں، مزید ابن المنیر رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فلو حملهم على ما يملكه لكفّر، و لا خلاف فيما إذا حلف على شيئي و ليس فى ملكه انه لا يفعل فعلاً متعلقًا بذالك الشيئي مثل قوله: والله لا ركبت هذا البعير و لم يكن البعير فى ملكه، فلو ملكه و ركبه حنث و كفّر و ليس هذا من تعليق العتق على الملك.» (1)
پس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس پر سوار کرتے جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملک ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کفارہ دیتے، کہتے ہیں کہ اس امر میں اختلاف نہیں ہے کہ جس نے کسی شئی کی قسم اٹھائی اور وہ اس کے ملک میں نہیں کہ وہ کوئی ایسا فعل نہ کرے گا جو اس شئی کے ساتھ معلق ہو، مثلا کہے کہ اگر تم اس اونٹ پر سوار ہوتے تو واللہ میں یہ کروں گا، اور وہ اونٹ اس کی ملک میں نہ ہو تو اگر وہ کبھی اس کا مالک ہوا پھر اس پر سوار ہوا تو حانث ہوا، اور یہ ملک ہر قسم کو معلق کرنے کے باب سے نہیں۔
ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ سواریاں اللہ تعالی نے تمہیں عطا کی ہیں، اگر یہ سواریاں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ملک میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم کا کفارہ دیتے۔
اب باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اس کے تین اجزاء ہیں، پہلا جزء «يمين» یعنی قسم، دوسرا جزء «في المعصية» یعنی نافرمانی، تیسرا جزء «في حالة الغضب» یعنی غصے میں قسم کھانا۔
ان تینوں اجزاء کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب تین احادیث کا انتخاب فرمایا ہے اور تینوں سے باب کا مطلب ظاہر ہوتا ہے۔
پہلی حدیث جو سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے، اس میں باب سے مطابقت کچھ یوں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للجزء الأول للترجمة و هو اليمين فيما لا يملك.» (2)
پہلے جزء سے حدیث کی مناسبت اس قسم سے ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔
دوسرے جزء کی مطابقت، دوسری حدیث سے یوں ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثاني للترجمة فى قوله: و الله لا أنفق على مسطح شيئًا أبدًا و هو مطابق لترك اليمين فى المعصية.» (3)
دوسرے جزء کی مناسبت دوسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں کے ساتھ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم! میں مسطح رضی اللہ عنہ پر اب کبھی خرچ نہیں کروں گا، یہ مطابقت ہے اس قسم کو ترک کرنے کی جو معاصیت پر قائم ہو۔
تیسرے جزء کی مناسبت تیسری حدیث کے ساتھ ان الفاظوں میں ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للجزء الثالث من الترجمة فى قوله: فوافقته و هو غضبان، فاستحملناه فخلف أن لا يحملنا.» (1)
تیسرے جزء کی مطابقت ان الفاظوں میں ہے: جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ غصہ میں تھے، پھر ہم نے آپ سے سواری کا جانور مانگا تو آپ نے قسم کھا لی کہ آپ ہمارے لیے اس کا انتظام نہیں کر سکتے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4415  
4415. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دوستوں نے، جو جیش عسرت، یعنی غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جانے والے تھے، آپ کے پاس سواریوں کے لیے بھیجا۔ میں نے آ کر خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں سواریاں مہیا کریں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں کوئی سواری دینے والا نہیں۔ اتفاق سے آپ اس وقت غصے میں تھے لیکن مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بہت رنجیدہ ہو کر واپس لوٹا۔ مجھے ایک رنج تو یہ تھا کہ نبی ﷺ نے سواریاں نہیں دیں اور دوسرا یہ رنج تھا کہ کہیں نبی ﷺ میرے سواری مانگنے پر ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور نبی ﷺ نے جو فرمایا تھا، وہ ان سے کہہ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سنا کہ حضرت بلال ؓ پکار رہے ہیں: اے عبداللہ بن قیس! میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں یاد فرمایا ہے، آپ کے پاس جاؤ۔ میں آپ کی خدمت میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4415]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا رسول کریم ﷺ سے سواریاں مانگنے کا ذکر ہے۔
اتفاق سے اس وقت سواریاں موجودنہ تھیں۔
لہٰذا آنحضر ت انے انکار فرما دیا۔
تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اور رسول پاک ﷺ نے ابوموسیٰ ؓ کو واپس بلوا کر پانچ چھ اونٹ ان کو دلوا دئیے۔
اب ابو موسیٰ ؓ کو یہ ڈر ہوا کہ میرے ساتھی مجھ کو جھوٹا نہ سمجھ بیٹھيں کہ ابھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ سواری نہیں دے رہے ہیں اور ابھی سواریاں لے کر آگیا۔
اس لیے حضرت ابوموسیٰ ؓ نے ان سے یہ کہا کہ میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق آنحضرت ﷺ سے کرلو تاکہ میری بات کا تم کو یقین ہوجائے۔
چنانچہ ابو موسیٰ ؓ کے اصرار شدید پر چھ آدمی خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ابو موسیٰ ؓ کے بیان کی تصدیق کی۔
حضرت ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری ؓ مشہور مہاجر صحابی ہیں۔
جنہوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی تھی اور یہ اہل سفینہ کے ساتھ مدینہ آئے تھے جبکہ رسول کریم ﷺ خیبر میں تھے۔
حضرت فاروق اعظم ؓ نے 20ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا اور خلافت عثمانی میں ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا گیا۔
جب ہی یہ مکہ آگئے تھے۔
52ھ میں مکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا، رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4415  
4415. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دوستوں نے، جو جیش عسرت، یعنی غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جانے والے تھے، آپ کے پاس سواریوں کے لیے بھیجا۔ میں نے آ کر خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں سواریاں مہیا کریں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں کوئی سواری دینے والا نہیں۔ اتفاق سے آپ اس وقت غصے میں تھے لیکن مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بہت رنجیدہ ہو کر واپس لوٹا۔ مجھے ایک رنج تو یہ تھا کہ نبی ﷺ نے سواریاں نہیں دیں اور دوسرا یہ رنج تھا کہ کہیں نبی ﷺ میرے سواری مانگنے پر ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور نبی ﷺ نے جو فرمایا تھا، وہ ان سے کہہ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سنا کہ حضرت بلال ؓ پکار رہے ہیں: اے عبداللہ بن قیس! میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں یاد فرمایا ہے، آپ کے پاس جاؤ۔ میں آپ کی خدمت میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4415]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سواریاں طلب کرنے کا ذکر ہے، اتفاق سے اس وقت سواریاں موجود نہ تھیں لہذا رسول اللہ ﷺ نے انکار فرما دیا۔
تھوڑی دیر بعد سواریاں مہیا ہوگئیں اورآپ نے حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو بلا کر چند سواریاں مہیا کر دیں۔
اب حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ڈر پیدا ہوا کہ میرے ساتھی مجھے جھوٹا کہیں گے یعنی ابھی تو اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں نہیں ہیں اوربھی سواریاں لے کر بھی آگئے۔
اس بنا پر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میرے ہمراہ چل کر میری بات کی تصدیق کرلو تاکہ تمھیں میری بات کا یقین ہوجائے، چنانچہ ان کے اصرار پر چھ آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے بیان کی تصدیق کی۔

قدوم اشعریین کے باب میں پانچ اونٹوں کا ذکر تھا اور اس روایت میں چھ اونٹوں کاذکر ہے؟ ممکن ہے کہ واقعات متعدد ہوں۔
جب اشعری حضرات آئے تو انھیں پانچ اونٹ دیے اور غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے چھ اونٹ دیے کیونکہ اشعری حضرات سات ہجری میں آئے تھے جبکہ غزوہ تبوک نوہجری میں ہوا تھا، اس کےعلاوہ تھوڑی تعداد زیادہ کے منافی نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4415