صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
79. بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
حدیث نمبر: 4417
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يُخْبِرُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُسْرَةَ، قَالَ: كَانَ يَعْلَى يَقُولُ تِلْكَ الْغَزْوَةُ أَوْثَقُ أَعْمَالِي عِنْدِي، قَالَ عَطَاءٌ: فَقَالَ صَفْوَانُ: قَالَ يَعْلَى: فَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا يَدَ الْآخَرِ، قَالَ عَطَاءٌ: فَلَقَدْ أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ أَيُّهُمَا عَضَّ الْآخَرَ فَنَسِيتُهُ، قَالَ: فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ مِنْ فِي الْعَاضِّ، فَانْتَزَعَ إِحْدَى ثَنِيَّتَيْهِ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، قَالَ عَطَاءٌ: وَحَسِبْتُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَأَنَّهَا فِي فِي فَحْلٍ يَقْضَمُهَا".
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صفوان بن یعلٰی بن امیہ نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ عسرت میں شریک تھا۔ بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنے تمام عملوں میں اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ عطاء نے بیان کیا، ان سے صفوان نے بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ وہ ایک شخص سے لڑ پڑا اور ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانت سے کاٹا۔ عطاء نے بیان کیا کہ مجھے صفوان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے کس نے اپنے مقابل کا ہاتھ کاٹا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ بہرحال جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے جو کھینچا تو کاٹنے والے کے آگے کا ایک دانت بھی ساتھ چلا آیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کے ٹوٹنے پر کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ عطاء نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ رہنے دیتا تاکہ تو اسے اونٹ کی طرح چبا جاتا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4584  
´ایک شخص دوسرے سے لڑے اور دوسرا اپنا دفاع کرے تو اس پر سزا نہ ہو گی۔`
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کر دیا، اور فرمایا: کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا: (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4584]
فوائد ومسائل:
حملہ آور کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا حق واجب ہے اور اس صورت میں حملہ آور کو اگر کو ئی چوٹ لگ جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4584   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4417  
4417. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حاضر ہوا۔ حضرت یعلیٰ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک یہ غزوہ میرا انتہائی قابل وثوق عمل ہے۔ میرا ایک مزدور تھا، وہ ایک دوسرے شخص سے جھگڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا ڈالا۔ (راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ نے بتایا تھا کہ کس نے دوسرے کا ہاتھ چبایا مگر یہ میں بھول گیا ہوں۔ انہوں نے کہا: جس کا ہاتھ چبایا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ، چبانے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا۔ وہ دونوں نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اس کے دانت کو ضائع قرار دیا۔ حضرت عطاء نے کہا: میرا خیال ہے کہ حضرت صفوان بن یعلیٰ نے کہا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑے رکھتا جسے تو چباتا رہتا گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جسے وہ چباتا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4417]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ بھی جنگ تبوک میں پیش آیا تھا۔
اسی لیے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4417   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4417  
4417. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حاضر ہوا۔ حضرت یعلیٰ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک یہ غزوہ میرا انتہائی قابل وثوق عمل ہے۔ میرا ایک مزدور تھا، وہ ایک دوسرے شخص سے جھگڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا ڈالا۔ (راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ نے بتایا تھا کہ کس نے دوسرے کا ہاتھ چبایا مگر یہ میں بھول گیا ہوں۔ انہوں نے کہا: جس کا ہاتھ چبایا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ، چبانے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا۔ وہ دونوں نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اس کے دانت کو ضائع قرار دیا۔ حضرت عطاء نے کہا: میرا خیال ہے کہ حضرت صفوان بن یعلیٰ نے کہا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑے رکھتا جسے تو چباتا رہتا گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جسے وہ چباتا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4417]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات کتاب الدیات میں ذکر ہوں گی۔
چونکہ اس حدیث میں غزوہ عسرہ، یعنی تبوک کا ذکر ہے اس بنا پر امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4417