صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
42. بَابُ الْقِسْمَةِ وَتَعْلِيقِ الْقِنْوِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں مال تقسیم کرنا اور مسجد میں کھجور کا خوشہ لٹکانا۔
قَالَ: أَبُو عَبْد اللَّهِ الْقِنْوُ الْعِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالْجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلَ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ.
‏‏‏‏ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ «قنو» کے معنی (عربی زبان میں) «عذق» (خوشہ کھجور) کے ہیں۔ دو کے لیے «قنوان» آتا ہے اور جمع کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «صنو» اور «صنوان» ۔
حدیث نمبر: 421
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَقَالَ: انْثُرُوهُ فِي الْمَسْجِدِ، وَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَمَا كَانَ يَرَى أَحَدًا إِلَّا أَعْطَاهُ، إِذْ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْ فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ احْتَمَلَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى كَاهِلِهِ ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ، فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ".
ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پوری کر چکے تو آ کر مال (رقم) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے (غزوہ بدر میں) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی (اس لیے میں زیر بار ہوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انہوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن (وزن کی زیادتی کی وجہ سے) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں (یہ نہیں ہو سکتا) انہوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی انکار کیا، تب عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، (لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انہوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی انکار کیا، تب انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 421  
421. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس بحرین سے کچھ مال لایا گیا تو آپنے فرمایا:اسے مسجد میں ڈھیر کر دو۔ یہ مال اب تک آپ کے پاس لائے گئے مالوں سے بہت زیادہ مقدار میں تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آ کر اس کے پاس بیٹھ گئے، پھر جسے دیکھا اسے دیتے چلے گئے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے بھی دیجیے، کیونکہ میں نے (بدر کی لڑائی میں) اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: اٹھا لو۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھ سے اتنا مال بھر لیا کہ اٹھا نہ سکے، کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیجیے کہ یہ مال اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انھوں نے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:421]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔
بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔
اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔
صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔
ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب ؒ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔
ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم ؒ نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔
احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاء حضرمی ؓ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا، آنحضرت ﷺ نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات (اقدس)
کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔
حضرت عباس ؓ کے لیے آنحضرت ؓ نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی، مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس ؓ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 421   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:421  
421. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس بحرین سے کچھ مال لایا گیا تو آپنے فرمایا:اسے مسجد میں ڈھیر کر دو۔ یہ مال اب تک آپ کے پاس لائے گئے مالوں سے بہت زیادہ مقدار میں تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آ کر اس کے پاس بیٹھ گئے، پھر جسے دیکھا اسے دیتے چلے گئے۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے بھی دیجیے، کیونکہ میں نے (بدر کی لڑائی میں) اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: اٹھا لو۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھ سے اتنا مال بھر لیا کہ اٹھا نہ سکے، کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان میں سے کسی کو کہہ دیجیے کہ یہ مال اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انھوں نے کہا: پھر آپ ہی اسے اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں۔ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:421]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں۔
مسجد میں اموال کی تقسیم
مسجد میں خوشئہ کھجور لٹکانے کا بیان۔
اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی گئی ہے، اسے امام حاکم ؒ نے مستدرک میں موصولاًبیان کیا ہے، اس سے اموال کی تقسیم کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے، لیکن اس میں خوشئہ کھجور لٹکانے کے متعلق کوئی ذکر نہیں۔
شارح ابن بطال ؒ نے اسے امام بخاری ؒ کی غفلت قراردیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 173/2)
ابن تین نے اسے امام بخاری ؒ کی بھول پر محمول کیا ہے۔
(فتح الباري: 668/1)
لیکن بعض شارحین نے امام بخاری ؒ کے ذوق کے مطابق توجیہات ذکر کی ہیں، امام بخاری ؒ خوشئہ کھجور لٹکانے کو تقسیم اموال پر قیاس کر رہے ہیں، کیونکہ دونوں میں ضرورت مندوں کے لیے مسجد میں مال رکھنے کی بات مشترک طور پر پائی جاتی ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کا ذکر کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے عوف بن مالک ؓ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے اور آپ کے ہاتھ میں عصاتھا۔
ایک شخص نے مسجد میں ردی کھجور کا خوشہ لٹکادیا تھا۔
آپ نے اس خوشے کو عصا مارتے ہوئے فرمایا:
صدقہ دینے والا اگر چاہتا تو اس سے بہتر بھی صدقہ دے سکتا تھا۔
(السنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2495)
چونکہ یہ روایت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا۔
(فتح الباري: 669/1)
اگرچہ اس روایت میں خوشئہ کھجور کا ذکر نہیں, لیکن امام ثابت بن حزم اندلسی ؒ نے دلائل في غریب الحدیث میں اس روایت کے ساتھ یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ جب آپ تشریف لائے تو آپ نے مسجد میں کھجورکے خوشےلٹکے ہوئے دیکھے، کیونکہ آپ نے ہر دیوار پر انھیں لٹکانے کا حکم دیاتھا تاکہ جن لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں وہ ان سے کھا سکیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اصل روایات میں خوشئہ کھجور کو مسجد میں لٹکانے کا تذکرہ تھا جن کی طرف امام بخاری ؒ نے عنوان میں اشارہ کر دیا ہے۔
(عمدة القاري: 409/3)
بہر حال روایت سے مسجد میں تقسیم اموال کا مسئلہ ثابت ہوگیا۔
رہا خوشئہ کھجور کے مسجد میں لٹکانے کا حکم تو وہ اگرچہ روایت میں نہیں تاہم قیاس اصل روایت یا دیگر روایات سے ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اشارہ فرمایا ہے۔

دیگر رویات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی ؒ نے تقریباً ایک لاکھ درہم بحرین سے بھیجے تھے جو وہاں کے باشندوں سے بطور خراج وصول کیے گئے تھے اور یہ مال مدینہ پہنچ چکا تھا اور آپ نے اسے تقسیم فرمایا۔
لیکن حضرت جابر ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین سے مال آنے پر انھیں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن آپ اس سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جاملے۔
دونوں روایات میں ظاہری طور پر تعارض معلوم ہو رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں، کیونکہ مال ہر سال آتا تھا جس سال آپ نے حضرت جابر ؓ کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس سال مال آنے سے پہلے آپ ﷺ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
(فتح الباري: 669/1)
واللہ أعلم۔

اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں ہر وہ کام کرنا جائز ہے جس کا تعلق مصالح عامہ سے ہو، مثلاً:
پانی کی سبیل کا اہتمام جس سے تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں، اسی طرح کے دیگر کام مسجد میں کیے جا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ مسجد میں تقسیم کے لیے مال تو رکھا جا سکتا ہے، لیکن مسجد کو بطور سٹور استعمال کرنا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 669/1)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر احکام ومسائل کتاب الجهاد حدیث 3049 کے تحت بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 421