صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
82. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4422
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ:" هَذِهِ طَابَةُ، وَهَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل بن سعد نے اور ان سے ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے تو (مدینہ کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا کہ یہ «طابة» ہے اور یہ احد پہاڑ ہے، یہ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1481  
´اللہ تعالیٰ نے بعض واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا`
«. . . قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ، فَعَقَلْنَاهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1481]

فقہ الحدیث:
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا:
«اما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد، ومن كان معه بعير فليعقله»
آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔
↰ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جا بجا اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا!
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 71، حدیث/صفحہ نمبر: 5   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3079  
´بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بیان۔`
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ۱؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا: آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ۲؎ کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3079]
فوائد ومسائل:

اس خاتون کا یہ باغ غالباً کسی بنجر زمین کو آباد کرکے ہی لگایا گیا تھا۔
جو اس کی ملکیت سمجھا گیا۔
اور یہ ایک قابل قدر کام ہے۔
حاکم ایلہ نے اطاعت قبول کرلی تھی۔
اس لئے آپ نے حاکم ایلہ کو اس کا علاقہ لکھ دیا اور یہ بھی کہ وہ جزیہ ادا کریں گے۔


پھل اترنے سے پہلے اس کا اندازہ لگانا جائز ہے۔
تا کہ اس کے مطابق عشر وغیرہ ادا کیا جا سکے۔


رسول اللہ ﷺ کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔
جو کہ معجزہ ہے۔
دیگر عام اندازہ لگانے والوں کا اندازہ یقینا کم یا زیادہ ہوتا ہے۔


غیر مسلم کا ہدیہ قبول کرلینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔


سفر میں اپنا مقصد پورا کرلینے کے بعد گھر آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3079   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4422  
4422. حضرت ابوحمید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ غزوہ تبوک سے نبی ﷺ کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: یہ طابہ ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4422]
حدیث حاشیہ:
طابہ، مدینہ طیبہ کا نام ہے اور اُحد پہاڑ کا محبت کرنا مبنی برحقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں قوتِ ادراک اور احساس پیدا کرنے پر قادر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
(بنی إسرائیل: 44: 17)
چونکہ اس حدیث میں غزوہ تبوک کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4422