صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
83. بَابُ كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كِسْرَى وَقَيْصَرَ:
باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
حدیث نمبر: 4426
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، يَقُولُ:" أَذْكُرُ أَنِّي خَرَجْتُ مَعَ الْغِلْمَانِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ نَتَلَقَّى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَقَالَ سُفْيَانُ: مَرَّةً مَعَ الصِّبْيَانِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے یاد ہے جب میں بچوں کے ساتھ ثنیۃ الوداع کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے گیا تھا۔ سفیان نے ایک مرتبہ ( «مع الغلمان» کے بجائے) «مع الصبيان‏.‏» بیان کیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2779  
´مسافر کا استقبال کرنا۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے مدینہ آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، تو میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جا کر ثنیۃ الوداع پر ملا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2779]
فوائد ومسائل:
یہ ایک مستحب عمل ہے۔
بالخصوص مسافر جب جہاد سے واپس آرہا ہو یا حج سے۔
لیکن اس میں دکھلاوا یا شہرت کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔
علماء محدثین کے متعلق بھی آتا ہے۔
کہ جب ان کی کسی شہر میں آمد متوقع ہوتی تو لوگ ان کا نہایت عمدہ انداز میں استقبال کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2779   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4426  
4426. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بچوں کے ہمراہ ثنیۃ الوداع تک گیا تھا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کا استقبال کرنے کے لیے نکلے تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ (غلمان کے بجائے) صبيان کا لفظ بیان کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4426]
حدیث حاشیہ:

ابن قیم ؓ نے اس بات کا انکار کیا ہےثنیہ الوداع مکے کی جانب ہے تبوک کی طرف نہیں۔
تبوک سے مخالف سمت میں واقع ہے لیکن ممکن ہے کہ تبوک کی طرف ثنیہ الوداع ہو جہاں مسافروں کو الوداع کہنے اہل مدینہ جاتے تھے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سربراہان مملکت کو غزوہ تبوک کے سال دعوتی خطوط لکھتےتھے اگرچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے صلح حدیبیہ کے سال قیصر کے نام خطوط لکھاتھا ممکن ہے کہ اسے دو مرتبہ دعوتی خط لکھا ہو جیسا کہ سر براہ حبشہ نجاشی کو خط لکھا تو وہ مسلمان ہو گیا اور آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اس کے بعد جو نجاشی بادشاہ بنا اسے بھی خط لکھا لیکن وہ مسلمان نہ ہوا بلکہ اسے کفر پر موت آئی۔
(فتح الباري: 162/6)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4426