صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4431
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ:" ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ"، فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" دَعُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ: فَنَسِيتُهَا.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا معلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوں کہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کیا آپ شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ (یہاں شور و غل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرنا جس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعید نے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 114   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4431  
4431. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ اس دن رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت پیدا ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ، میں تمہیں کوئی دستاویز لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے۔ لیکن وہاں اختلاف ہو گیا، حالانکہ نبی ﷺ کے سامنے اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام کر رہے ہیں؟ آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ آپ سے پوچھنے لگے تو آپ نے فرمایا: جاؤ، میں جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو تین چیزوں کی وصیت فرمائی: آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ آنے والے وفود کو اسی طرح خاطر تواضع کرنا جس طرح میں کرتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4431]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں تیسری بات یہ تھی کہ میری قبر کو بت نہ بنا لینا۔
اسے مؤطا میں امام مالک نے روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4431   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4431  
4431. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ اس دن رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت پیدا ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ، میں تمہیں کوئی دستاویز لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے۔ لیکن وہاں اختلاف ہو گیا، حالانکہ نبی ﷺ کے سامنے اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام کر رہے ہیں؟ آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ آپ سے پوچھنے لگے تو آپ نے فرمایا: جاؤ، میں جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو تین چیزوں کی وصیت فرمائی: آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ آنے والے وفود کو اسی طرح خاطر تواضع کرنا جس طرح میں کرتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4431]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کو "حدیث قرطاس" کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی وفات پیر کے دن ہوئی اور دستاویز کا واقعہ جمعرات کے دن پیش آیا۔
اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں اختلاف ہوا جس کی بنا پر آپ نے دستاویز نہ لکھی۔
اس کے متعلق روافض بہت شور وغل کرتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے پرمامور ہیں۔
کسی کے خوف سے آپ فریضہ تبلیغ نہیں چھوڑ سکتے، خصوصاً ایسی چیز جو گمراہی سے بچاتی ہو اسےتو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔
ایسی بات ہوئی تو آپ حضرت عمرؓ کو روک دیتے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے حضرت عمر ؓ کو روک دیا تھا۔

حضرت عمر ؓ صائب الرائے تھے۔
ان کی رائے کے مطابق کئی موقعوں پرقرآن نازل ہوا۔
اگر ایسے آدمی نے روک دیا تو ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی اور ان کی رائے کی خود رسول اللہ ﷺ نے بھی تائید کی۔
اگر ایسا ضروری معاملہ ہوتا تو آپ اس کے بعد تین چار دن زندہ رہے ان ایام میں کسی سے لکھوا لیتے، نیز قبل ازیں تکمیل دین کی آیت نازل ہو چکی تھی اب اگر گمراہی سے بچانے والی چیز باقی رہ گئی تو پھر تکمیل دین کے کیا معنی ہوں گے؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی نئی بات بیان نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ یا تو مفصلات کو مجملاً بیان کرنا چاہتے تھے یا پہلی باتوں میں سے کسی بات کی تاکید کرنا چاہتے تھے جس کے لیے حضرت عمر ؓ نے آپ کو تکلیف دینا ضروری خیال نہ کیا۔
ان حقائق کی روشنی میں فہم عمر کو فہم ابن عباس ؓ پرترجیح دی جائے گی، رسول اللہ ﷺ نے آخر میں تین چیزوں کی وصیت کی تھی جن پر حضرت عمر ؓ عمل پیرا ہوئے۔
حضرت ابن عباس ؓ بھی حضرت عمر ؓ پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ لکھ دیتے تو منافقین کے لیے حضرت عمر ؓ پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ تھی۔

اس حدیث میں ہے کہ تیسری بات راوی بھول گیا ہے، اس کے متعلق درج ذیل احتمالات ہیں۔
وہ وصیت بالقرآن تھی
۔
وصیت جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق تھی۔
۔
میری قبر پر میلہ اور جشن نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
۔
نماز کی حفاظت اور ماتحت عملے پر نرمی کی وصیت تھی۔
(فتح الباري: 169/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4431