صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4435
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ سورة النساء آية 69 الْآيَةَ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا، آپ اپنے مرض الموت میں فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھاری ہو چکی تھی۔ آپ آیت «مع الذين أنعم الله عليهم‏» کی تلاوت فرما رہے تھے (یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے) مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1620  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1620]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کا اختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔
لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔
اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔

(2)
اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔
ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔

(3)
اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)
 کی وضاحت ہوگئی۔

(4)
بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔
ان میں سے نبوت کا منصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔
باقی تینوں درجات (صدیق، شہید، صالح)
ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔
مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1620   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4435  
4435. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ نے آخرت کو اختیا ر کیا۔
واقدی نے کہا آنحضرت ﷺ نے دنیا میں آنے پر سب سے پہلے جو کلمہ زبان سے نکالا وہ اللہ اکبر تھا اور آخر کلمہ جو وفات کے وقت فرمایا، وہ الرفیق الاعلیٰ تھا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4435   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4435  
4435. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6509)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سے جو استنباط کیا اسی طرح کا استنباط ان کے والد گرامی حضرت ابو بکرؓ نے بھی کیا تھا چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے ایک اختیار کرنے کے متعلق کہا ہے تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کیا۔
حضرت ابو بکر ؓ نے یہ سن کر روتے ہوئے کہا:
ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3904)
حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اس کلام سے یہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے اور آپ نے آخرت کو پسند فرمایا ہے۔
اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بیٹی اور باپ کی فہم و فراست اللہ کی طرف سے ایک عطیہ تھی۔
(فتح الباري: 172/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4435