صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4459
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَتْ: مَنْ قَالَهُ؟ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَمُسْنِدَتُهُ إِلَى صَدْرِي، فَدَعَا بِالطَّسْتِ فَانْخَنَثَ فَمَاتَ، فَمَا شَعَرْتُ، فَكَيْفَ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ؟".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو ازہر بن سعد سمان نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، انہیں ابراہیم نخعی نے اور ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس کا ذکر آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو کوئی (خاص) وصیت کی تھی؟ تو انہوں نے بتلایا کون کہتا ہے، میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھی، آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ نے طشت منگوایا، پھر ایک طرف جھک گئے اور آپ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہوا، پھر علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے کب وصی بنا دیا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 33  
´طشت میں پیشاب کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) علی رضی اللہ عنہ کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ (آپ فوت ہو گئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی؟ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 33]
33۔ اردو حاشیہ:
«طست» ایک تھال کی طرح کا برتن ہوتا تھا جس کا پیندہ قریب ہوتا تھا اور منہ کھلا۔ اس قسم کے برتن میں پیشاب کرنے سے چھینٹے پڑنے کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے یہ باب قائم فرمایا کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے، چھینٹے نہ پڑیں تو کوئی حرج نہیں۔
➋ اس حدیث میں وصیت سے وصیت خلافت مراد ہے جیسا کہ روا فض کا عقیدہ ہے، اسی لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ وصیت تو وفات کے وقت ہوتی ہے اور اس وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ وہیں آپ کی وفات ہوئی۔ [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1389]
لہٰذا وصیت کب کی؟ اور کس کو کی؟ یعنی آپ نے کوئی وصیت نہیں کی، نہ آپ کو اس کا موقع ہی ملا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 33   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4459  
4459. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ان کے پاس ذکر ہوا کہ نبی ﷺ نے حضرت علی ؓ کو کوئی خاص وصیت کی ہے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: یہ کون کہتا ہے؟ میں خود نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھی، آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ نے طشت منگوایا، پھر ایک طرف جھک گئے اور آپ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں ہوا، پھر حضرت علی ؓ کو آپ نے کب وصی بنا دیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4459]
حدیث حاشیہ:

وصیت اگر ہو سکتی تھی تو زندگی کے آخری لمحات میں ہو سکتی تھی۔
آخری وقت کی وصیت کا حضرت عائشہ ؓ انکار کر رہی ہیں اس کے باوجود اگر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کوئی وصیت کی ہوتی تو صحابہ میں سے کسی نے تو اسے سنا ہوتا۔
کوئی اسے بیان کرتا، حالانکہ کتب حدیث میں وصیت مزعومہ کے متعلق کوئی بھی روایت وحکایت منقول نہیں ہے۔
ایسے حالات میں حضرت علی ؓ "وصي رسول اللہ" کیسے بن گئے؟ 2۔
خود حضرت علی ؓ کی تصریحات ہیں کہ وصیت کے متعلق ہماری کوئی خصوصیت نہیں ہے۔
حضرت علی ؓ اپنا صحیفہ دکھایا کرتے تھے جس میں احکام صدقات ودیات وغیرہ تھے۔
اس میں بھی خلافت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4459