سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
14. باب في وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
حدیث نمبر: 84
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: "تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، فَحُبِسَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَلَيْلَتَهُ وَالْغَدَ حَتَّى دُفِنَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ، وَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى، فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى، وَاللَّهِ لَا يَمُوتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أَقْوَامٍ وَأَلْسِنَتَهُمْ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ حَتَّى أَزْبَدَ شِدْقَاهُ مِمَّا يُوعِدُ وَيَقُولُ، فَقَامَ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْسَنُ كَمَا يَأْسَنُ الْبَشَرُ، أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ، أَيُمِيتُ أَحَدَكُمْ إِمَاتَةً وَيُمِيتُهُ إِمَاتَتَيْنِ وَهُوَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ؟، أَيْ قَوْمِ، فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، فَإِنْ يَكُ كَمَا تَقُولُونَ فَلَيْسَ بِعَزِيزٍ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْحَثَ عَنْهُ التُّرَابَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى تَرَكَ السَّبِيلَ نَهْجًا وَاضِحًا، فَأَحَلَّ الْحَلَالَ، وَحَرَّمَ الْحَرَامَ، وَنَكَحَ وَطَلَّقَ، وَحَارَبَ وَسَالَمَ، مَا كَانَ رَاعِي غَنَمٍ يَتَّبِعُ بِهَا صَاحِبُهَا رُءُوسَ الْجِبَالِ يَخْبِطُ عَلَيْهَا الْعِضَاهَ بِمِخْبَطِهِ وَيَمْدُرُ حَوْضَهَا بِيَدِهِ بِأَنْصَبَ وَلَا أَدْأَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ فِيكُمْ، أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، قَالَ: وَجَعَلَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَبْكِي، فَقِيلَ لَهَا: يَا أُمَّ أَيْمَنَ تَبْكِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الدُّنْيَا، وَلَكِنِّي أَبْكِي عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ انْقَطَعَ، قَالَ حَمَّادٌ: خَنَقَتِ الْعَبْرَةُ أَيُّوبَ حِينَ بَلَغَ هَا هُنَا".
سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے روز وفات پائی اور آپ (کا جسد خاکی) پیر کے دن اور رات، منگل کے دن تک رکھا رہا، بدھ کی رات کو آپ کو دفن کیا گیا، (کچھ) لوگوں نے کہا آپ مرے نہیں ہیں آپ کی روح کو (آسمان پر) لے جایا گیا ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو لے جایا گیا، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں بلکہ آپ کی روح کو ویسے ہی اوپر لے جایا گیا ہے جیسے موسٰی کی روح کو آسمان پر لے جایا گیا، والله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام قوموں کے جب تک ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیں آپ مر ہی نہیں سکتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ شدت ولولہ سے آپ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں، بیشک آپ بشر ہیں اور بوڑھے ہوئے، جس طرح انسان بشر بوڑھا ہوتا ہے، اے لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، آپ اللہ تعالی کے نزدیک بڑے مکرم ہیں، آپ کو اللہ تعالی دو بار موت نہیں دے گا، تم سب تو ایک بار مارے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دو بار موت آئے؟ (یہ نہیں ہو سکتا) آپ تو اللہ کے نزدیک بڑے معزز و مکرم ہیں۔ لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، اور جیسا کہ تم کہتے ہو (کہ آپ کو موت نہیں آئی) اگر ویسا ہی ہے تو الله تعالی کے لئے کوئی مشکل و دشوار نہیں ہے کہ مٹی خود آپ کو تلاش کر لے۔ قسم اللہ کی! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت انتقال فرمایا ہے جب کہ آپ سارا راستہ واضح کر چکے، حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دیا، نکاح کیا، طلاق دی، جنگ کی، اور مصالحت بھی کی۔ کوئی بھی (چرواہا) بکریوں کی دیکھ بھال کرنے والا، جو اپنے ریوڑ کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر ان کے لئے اپنی چھڑی سے درخت سے پتے گرائے، انہیں پانی کے لئے حوض (تالاب) پر لے جائے، تم میں سے ایسا کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھکنے والا نہ ہو گا، اٹھو لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو۔ راوی نے کہا: سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا رو پڑی تھیں، پوچھا گیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر روتی ہو؟کہا: اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں رو رہی، کیا مجھے معلوم نہیں کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے، مجھے تو رونا اس بات پر آ رہا ہے کہ آسمان سے وحی کا نزول منقطع ہو گیا۔ راوی حدیث حماد کا کہنا ہے کہ ایوب جب اس مقام تک پہنچے تو آنسوؤں سے ان کی آواز رُندھ گئی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 84]»
یہ روایت مرسل ہے لیکن اس کے رواة ثقات ہیں اور اسے ابن سعد نے ذکر کیا ہے اور سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا رونا [مسلم شريف 2454] میں موجود ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 83)
اس روایت سے معلوم ہوا:
اختلافِ رائے طبیعی امر ہے، لیکن حق واضح ہو جائے تو مان لینا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان (بشر) ہونا اور انسانوں کے سے کام کرنا، جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔
میت پر رونا لیکن واویلا سے گریز ثابت ہوتا ہے۔
نیز یہ کہ دنیا سے آخرت بہترین آرام گاہ ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت و عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔