صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
11. بَابُ: {قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا} :
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4485
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ، وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا: آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا سورة البقرة آية 136" الْآيَةَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے کہ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب (یہودی) توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو «آمنا بالله وما أنزل إلينا» یعنی ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 155  
´اسرائیلیت کی تصدیق یا تکذیب کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ أهل الْكتاب يقرؤون التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَ (قُولُوا آمنا بِاللَّه وَمَا أنزل إِلَيْنَا» الْآيَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: اہل کتاب (یہود) اپنی کتاب تورات کو عبرانی زبان میں تلاوت کرتے اور پڑھتے تھے۔ اور مسلمانوں کے سامنے اس کا ترجمہ اور تفسیر عربی زبان میں بیان کرتے تھے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تم اہل کتاب کو سچا ہی جانو (ممکن ہے غلط مطلب سمجھاتے ہوں) اور نہ تم ان کو جھوٹا ہی سمجھو (ہو سکتا ہے کہ صحیح مطلب سمجھا رہے ہوں) تم صرف اتنا ہی کہہ دو کہ «امنا بالله وما انزل الينا» ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو چیز ہم پر نازل کی گئی ہے اس پر بھی ایمان لے آئے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 155]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7362]

فقہ الحدیث:
➊ اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جو عبرانی زبان والی تورات کو مانتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں کے پاس تورات اور ان کی مذہبی کتابوں کی صحیح متصل سند موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ لوگ اندھیروں میں سرگرداں بھٹک رہے ہیں۔
➋ اہل کتاب کی جو روایت کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہ ہو تو اسے بیان کرنا جائز ہے۔
➌ مشکل معاملات جن میں فیصلہ نہ ہو سکے، ان کے بارے میں توقف کرنا ضروری ہے۔
➍ کتاب و سنت کے خلاف رائے پیش نہیں کرنا چاہئیے۔
➎ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھنا جائز ہے، بشرطیکہ کتاب و سنت، اجماع اور سلف صالحین کے فہم کو مدنظر رکھا جائے۔
➏ اہل حق کے مخالفین کی کتابیں پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ پڑھنے والا عالم بالحق ہو اور اس کا مقصود حق کا دفاع اور باطل کا رد ہو۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 155   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4485  
4485. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اہل کتاب، تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4485]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ اوپر گزر چکا ہے۔
وما أنزل سے مراد قرآن مجید ہے جو پہلی ساری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔
اہل کتاب کی جن باتوں کا قرآن میں رد موجود ہے وہ ضرور قابل تکذیب ہیں اور جن کے متعلق خاموشی ہے، ان کے بارے میں یہ اصول ہے جو بیان ہوا۔
آج کل کے اہل کتاب بہت زیادہ گمراہی میں گرفتار ہیں۔
لہٰذا وہ اس حدیث کے مصداق بہت ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4485   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4485  
4485. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اہل کتاب، تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4485]
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید میں ہے کہ وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اس لیے پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور یہ ایمان اجمالی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ بنے اپنے انبیاءؑ پر انھیں نازل فرمایا اور جو کچھ ان کتابوں میں تھا اس بنا پر ان کے بیان کردہ جوحقائق قرآن کریم کے مطابق ہیں وہ قابل تصدیق ہیں اور جن کا رد قرآن کریم میں موجود ہے وہ قابل تکذیب ہیں اور جن باتوں کے متعلق قرآن کریم خاموش ہے ان کے متعلق وہی توقف کا اصول ہے جو حدیث بالا مذکورہےکیونکہ اہل کتاب جو کچھ بیان کریں گے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں، اگر ہم اس کی تصدیق کریں تو ممکن ہے کہ وہ درحقیقت صحیح نہ ہو بلکہ تحریف شدہ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ہم اس کی تکذیب کریں جبکہ وہ درحقیقت صحیح اور درست ہو۔
چونکہ انبیائے کرامؑ کے احکام و شرائع میں جزوی فرق رہا ہے۔
اس لیے موقف ضروری ہے۔

موجود اہل کتاب تو بہت زیادہ گمراہی میں گرفتار ہیں لہٰذا وہ اس حدیث کے زیادہ مصداق ہیں اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکل معاملات میں توقف کرنا چاہیے تصدیق و انکار میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4485