صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
33. بَابُ: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ} :
باب: آیت کی تفسیر ”تو پھر جو شخص حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھائے“۔
حدیث نمبر: 4518
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عِمْرَانَ أَبِي بَكْرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُنْزَلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهُ وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا حَتَّى مَاتَ"، قَالَ رَجُلٌ: بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عمران ابی بکر نے، ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (حج میں) تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ (حج) کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی (لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے) یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4518  
4518. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حج تمتع کی آیت تو کتاب اللہ میں نازل ہوئی اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج تمتع کیا۔ قرآن کریم میں اس کی حرمت نازل نہیں ہوئی اور نہ مرتے دم تک آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ اب جو شخص اپنی رائے سے جو چاہے کہتا رہے۔ محمد (امام بخاری ؒ) کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمر ؓ ہیں (کیونکہ ان کی رائے حج تمتع کے خلاف تھی)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4518]
حدیث حاشیہ:
ایک صاحب سے مراد حضرت عمرؓ ہیں، جن کی رائے تمتع کے خلاف تھی۔
حضرت عمران بن حصینؓ نے حضرت عمر ؓ کے اس خیال کو ان کی رائے قرار دیا اور قرآن وحدیث کے خلاف اسے تسلیم نہیں کیا۔
اس سے مقلدین کو سبق لینا چاہئیے۔
جب حضرت عمرؓ کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں قرآن وحدیث کے خلاف تسلیم کے لائق نہ ٹھہری تو وہ دوسرے مجتہدین کس گنتی وشمار میں ہیں۔
ان کی رائے جو حدیث کے خلاف ہو تسلیم کے قابل نہیں ہے۔
خود ان ہی نے ایسی وصیت فرمائی ہے۔
لفظ متعہ سے حج تمتع مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4518   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4518  
4518. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حج تمتع کی آیت تو کتاب اللہ میں نازل ہوئی اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج تمتع کیا۔ قرآن کریم میں اس کی حرمت نازل نہیں ہوئی اور نہ مرتے دم تک آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ اب جو شخص اپنی رائے سے جو چاہے کہتا رہے۔ محمد (امام بخاری ؒ) کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمر ؓ ہیں (کیونکہ ان کی رائے حج تمتع کے خلاف تھی)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4518]
حدیث حاشیہ:

حج کی تین قسمیں ہیں:
الف۔
افراد:
صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جائے۔
ب۔
قرآن:
حج وعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرکے احرام باندھا جائے۔
ج۔
تمتع:
اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کی نیت ہوتی ہے لیکن پہلے صرف عمرہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد آٹھ ذوالحج کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔
حج قران اور حج تمتع میں ایک ہدی بھی قربانی دینا ہوتی ہے۔
حضرت عمران حج تمتع سے متعلق اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔

حضرت عمرؓحج تمتع سے منع کرتے تھے۔
اس کی وجہ اس کا حرام ہونا نہیں بلکہ ان کے پیش نظر یہ مصلحت تھی کہ لوگ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ ادا کرکے خانہ کعبہ کو چھوڑ کر نہ جائیں بلکہ حج اور عمرے کے لیے الگ الگ سفرکرکے برابر بیت اللہ میں آتے رہیں۔
چونکہ آپ کا یہ موقف کتاب وسنت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عمران بن حصین ؓ نے اس موقف کو ان کی ذاتی رائے قراردیا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو کسی خاص امام کی تقلید کو ضروری قرار دیتے ہیں، جب خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کی رائے مطلقاً قابل تسلیم نہیں تو دوسرے مجتہدین کس شمار میں ہیں؟ حالانکہ خود مجتہدین نے وصیت فرمائی ہے کہ کتاب وسنت کے خلاف ہماری رائے کو تسلیم نہ کیا جائے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4518