صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
35. بَابُ: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 4521
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ , حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ , أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" يَطَّوَّفُ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ مَا كَانَ حَلَالًا حَتَّى يُهِلَّ بِالْحَجِّ، فَإِذَا رَكِبَ إِلَى عَرَفَةَ , فَمَنْ تَيَسَّرَ لَهُ هَدِيَّةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ ذَلِكَ , أَيَّ ذَلِكَ شَاءَ غَيْرَ أَنَّهُ إِنْ لَمْ يَتَيَسَّرْ لَهُ فَعَلَيْهِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ , وَذَلِكَ قَبْلَ يَوْمِ عَرَفَةَ , فَإِنْ كَانَ آخِرُ يَوْمٍ مِنَ الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ , ثُمَّ لِيَنْطَلِقْ حَتَّى يَقِفَ بِعَرَفَاتٍ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ يَكُونَ الظَّلَامُ، ثُمَّ لِيَدْفَعُوا مِنْ عَرَفَاتٍ إِذَا أَفَاضُوا مِنْهَا حَتَّى يَبْلُغُوا جَمْعًا الَّذِي يَبِيتُونَ بِهِ , ثُمَّ لِيَذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَأَكْثِرُوا التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا , ثُمَّ أَفِيضُوا , فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يُفِيضُونَ , وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة البقرة آية 199 حَتَّى تَرْمُوا الْجَمْرَةَ".
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو کریب نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ (جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس واستغفروا الله إن الله غفور رحيم‏» یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4521  
4521. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: (حج تمتع کرنے والا) حاجی جب تک احرام کی پابندیوں سے آزاد رہے تو وہ بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ پھر جب (آٹھویں تاریخ کو) حج کا احرام بندھے اور عرفات جانے کے لیے سوار ہو تو اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ سے جو قربانی میسر ہو اسے (نحر کے دن) ذبح کرے۔ اور اگر قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو حج کے دنوں میں یوم عرفہ سے پہلے تین دن کے روزے رکھے۔ اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پھر (منیٰ سے) چل کر عرفات کو جائے، وہاں نماز عصر کے بعد رات کی تاریکی تک وقوف کرے۔ پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ واپس آئیں اور سب لوگوں کے ساتھ مزدلفہ میں رات بسر کرے، وہاں صبح تک اللہ کا ذکر، تکبیر و تہلیل بکثرت کرے۔ پھر وہاں سے لوگوں کے ساتھ منیٰ واپس آئے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے: "پھر وہاں سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ تعالٰی سے بخشش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4521]
حدیث حاشیہ:

حلال ہونے کی دو صورتیں ہیں:
الف۔
ایک آدمی کافی عرصہ سے مکہ میں مقیم ہے تو جب تک احرام کی پابندیوں سے آزاد ہے اسے چاہیے کہ وقتاً فوقتاً بیت اللہ کا طواف کرتا رہے۔
ب۔
اگر مکہ کے باہر سے عمرے کا احرام باندھ کر آیا ہے تو عمرہ کرکے جب وہ حلال ہوجائے تو جب تک مکہ مکرمہ میں رہے، حج کا احرام باندھنے تک بیت اللہ کا طواف کرتا رہے۔

میدان عرفات میں عصر کی نماز جمع تقدیم کے ساتھ نماز ظہر کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک میدان عرفات میں وقوف کیا جائے۔
غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز ادا کیے بغیر مزدلفہ روانہ ہونا چاہیے، وہاں پہنچ کر نماز مغرب کو نماز عشاء کے ساتھ جمع تاخیر سے ادا کیا جائے۔
واضح رہے کہ وقوف عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے، اسکے بغیر حج نہیں ہوتا۔
بہتر ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے میدان عرفہ میں حاضر ہوجائے۔
اگرکسی مجبوری کی وجہ سے غروب آفتاب سے پہلے میدان عرفہ نہ پہنچ سکے تو فجر سے پہلے پہلے میدان عرفہ میں حاضر ہوجائے تو بھی جائز ہے۔
(فتح الباري: 235/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4521