صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
36. بَابُ: {وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو“۔
حدیث نمبر: 4522
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1353  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے «ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے ہمارے آقا و مولا! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی سے سر خرو فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1353»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: "ربنا! آتنا في الدنيا حسنةً"، حديث:6389، ومسلم، الذكر والدعاء، باب فضل الدعاء باللّٰهم! آتنا في الدنيا حسنةً...، حديث:2690.»
تشریح:
1. اس حدیث میں جس دعا کا ذکر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بکثرت پڑھتے تھے۔
یہ دعا سب دعاؤں سے جامع ہے۔
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دنیا و آخرت کے جملہ مطالب اس میں آگئے ہیں۔
2.لفظ حسنۃ میں دنیا کے اعتبار سے نیک عمل‘ نیک اولاد‘ وسعت رزق ‘ علم نافع اور صحت و عافیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
صرف ایک لفظ حسنۃ کہہ کر دنیا کی تمام بھلائیاں طلب کر لیں اور آخرت کے لیے یہی لفظ بول کر جنت طلب کر لی اور آخرت کی گھبراہٹ سے امن و سلامتی اور حساب و کتاب کی آسانی بھی طلب کر لی‘ نیز آگ کے عذاب‘ یعنی جہنم کے عذاب سے پناہ کی درخواست بھی کر دی۔
گویا اس مختصر مگر جامع دعا میں دنیا و آخرت کی ساری نعمتیں مانگ لیں اور دوزخ کے عذاب سے پناہ و نجات طلب کر لی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1353   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4522  
4522. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے: "اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بہتری عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4522]
حدیث حاشیہ:
یہ دعا بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
جسے بکثرت پڑھنا دین اور دنیا میں بہت سی برکتوں کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں اس سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو حج میں خالی دنیاوی مفاد کی دعائیں کرتے اور آخرت کو بالکل بھول جاتے تھے۔
مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی گئی کہ وہ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی مانگیں۔
اس آیت کا شان نزول یہی ہے۔
عرفات میں بھی زیادہ تر اس دعا کی فضیلت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4522   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4522  
4522. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے: "اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بہتری عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4522]
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید میں اس دعائے ربانی سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو حج کرتے وقت اپنے دنیاوی مفاد کی دعائیں کرتے اورآخرت کو بالکل نظرانداز کردیتے تھے اور ارشاد باری تعالیٰ:
ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں:
اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں ہی سب کچھ دے دے۔
ایسےشخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
(البقرة: 200/2)
مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی گئی کہ وہ دوران حج میں دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی مانگیں، اس کے لیے مذکورہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہے اسے بکثرت پڑھتے رہنا دین ودنیا کی نعمتوں کا باعث ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6389)

اس دعا سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا سوال تو کرنا چاہیے لیکن اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہی جانتاہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے؟ لہذا بندے کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز پیش کرنے کے بجائے معاملہ اللہ تعالیٰ ہی پرچھوڑدے، چنانچہ اس انداز سے دعا کرنے والوں کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے:
"ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ)
حصہ پائیں گے۔
" اور یہ حصہ اس اُصول کے مطابق ہوگا جو اس نے اپنے بندوں کی نیکیوں کا بدلہ دینے کے لیے مقرر کر رکھا ہے جس کی وضاحت اس نے خود قرآن میں کی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4522