صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
41. بَابُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} إِلَى: {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
حدیث نمبر: 4531
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شِبْلٌ , عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234 , قَالَ:" كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، وَصِيَّةً إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ سورة البقرة آية 240، فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا" زَعَمَ ذَلِكَ , عَنْ مُجَاهِدٍ , وَقَالَ عَطَاءٌ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى:غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240 , قَالَ عَطَاءٌ:" إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ , لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ سورة البقرة آية 234 , قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ، فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَلَا سُكْنَى لَهَا" , وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ,حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ , عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا , وَعَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240 نَحْوَهُ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبل بن عباد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور انہوں نے مجاہد سے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں (زمانہ جاہلیت کی طرح) کہا کہ عدت (یعنی چار مہینے دس دن کی) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف‏» اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت (کر جائیں) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں، لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے مطابق (شوہر کے گھر میں ہی) ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے (یعنی چار مہینے دس دن)۔ شبل نے کہا ابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول «غير إخراج‏» کا یہی مطلب ہے۔ عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فلا جناح عليكم فيما فعلن‏» اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔ عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے (عورت کے لیے) گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں اور محمد بن یوسف نے روایت کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے، یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج‏» وغیرہ سے ثابت ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4531  
4531. حضرت مجاہد سے روایت ہے، انہوں نے اس آیت: "تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں" کے متعلق فرمایا کہ یہ عدت (چار ماہ دس دن) جو عورت گزارتی تھی یہ اپنے شوہر کے گھر والوں کے پاس گزارنا ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: "اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے حق میں ایک سال تک فائدہ اٹھانے اور گھر سے نہ نکالنے کی وصیت کر جائیں، البتہ اگر وہ خود نکلنا چاہیں تو ان کے اپنے بارے میں دستور کے مطابق کوئی کام کرنے کی بنا پر تمہیں کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" مجاہد فرماتے ہیں: اللہ تعالٰی نے ایسی عورت کے لیے باقی سال، یعنی سات ماہ بیس دن وصیت کے قرار دیے ہیں۔ اگر وہ چاہے تو اپنے لیے کی گئی وصیت کے مطابق شوہر کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو کسی اور جگہ چلی جائے۔ اللہ تعالٰی کے فرمان: "انہیں نہ نکالا جائے، ہاں اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4531]
حدیث حاشیہ:

اس مقام پر دو آیات کی وضاحت مطلوب ہے جو حسب ذیل ہیں۔
"جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو انھیں چار ماہ دس دن تک انتظار کرنا ہو گا۔
"(البقرہ: 2/234)
یہ آیت تربص ہے اور قرآنی ترتیب میں مقدم ہے۔
"اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑجائیں وہ ایک سال تک بیویوں کو نفع پہنچانے کی وصیت کر جائیں کہ انھیں گھر سے نہ نکالا جائے ہاں اگر وہ کود نکل جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
'' (البقرہ: 240/2)
یہ آیت حول ہے اور قرآنی ترتیب میں مؤخرواقع ہے جمہور کے مطابق آیت حول منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت تربص ہے جو ترتیب میں اس سے پہلے ہے۔
حالانکہ آیت منسوخ پہلے اور آیت ناسخ بعد میں نازل ہوئی ہے۔

موجود ترتیب کے پیش نظر مجاہد اور عطاء نے یہ دعوی کیا ہے کہ آیت حول جو مؤخر سے منسوخ نہیں بلکہ آیت تربص کی وضاحت کرتی ہے کیونکہ منسوخ آیت تو ناسخ آیت سے پہلے ہوا کرتی ہے ترتیب نزول میں تو واقعی یہی ہوتا ہے لیکن تلاوت کی ترتیب میں یہ ضروری نہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موجودہ ترتیب آیات جو تلاوت کے وقت ملحوظ رہتی ہے۔
توقیفی ہے، اس میں رائے اور قیاس کوکوئی دخل نہیں۔
اس بنا پر جمہور اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ آیت حول منسوخ ہے اور آیت تربص اس کے لیے ناسخ ہے۔
پہلے عورت بیوگی کی عدت ایک سال گزارا کرتی تھی۔
پھر جب آیت تربص نازل ہوئی تو اس میں بیوگی کی عدت سال کے بجائے چارہ ماہ دس دن مقرر کی گئی لیکن امام مجاہد اور عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس موقف کے برعکس نقل کیا ہے کہ آیت حول منسوخ نہیں بلکہ وصیت کا حکم آیت حول میں چار ماہ دس دن کی عدت کے مقرر ہونے کے بعد دیا گیا ہے۔
پھر ان بیوگان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس وصیت سے استفادہ کریں۔
اگر استفادہ نہ کرنا چاہیں توجہاں چاہیں عدت کے ایام گزار لیں۔

یاد رہے کہ اس مقام پر ناسخ آیت تربص تلاوت میں منسوخ آیت حول سے مقدم ہے لیکن نزول میں مؤخر ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ناسخ آیت تلاوت اور نزول دونوں میں مؤخر ہو لیکن قرآن مجید میں اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں جیسا کہ آیت:
﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ)
تلاوت میں (سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ﴾ سے مؤخر ہے لیکن نزول میں مقدم ہے واللہ اعلم۔
ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا موقف مبنی پر حقیقت ہے کہ آیت تربص ناسخ ہے اور آیت حول منسوخ جبکہ امام مجاہد اور حضرت عطاء کو آیت حول کے تلاوت میں مؤخر ہونے کی وجہ سے وہم ہوا اور انھوں نے آیت حول کو ناسخ اور آیت تربص کو منسوخ سمجھ لیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4531