صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
41. بَابُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} إِلَى: {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
حدیث نمبر: 4532
حَدَّثَنَا حِبَّانُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى مَجْلِسٍ فِيهِ عُظْمٌ مِنْ الْأَنْصَارِ , وَفِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى , فَذَكَرْتُ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ , فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ , فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَلَكِنَّ عَمَّهُ كَانَ لَا يَقُولُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ:" إِنِّي لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى رَجُلٍ فِي جَانِبِ الْكُوفَةِ وَرَفَعَ صَوْتَهُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ، فَلَقِيتُ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ أَوْ مَالِكَ بْنَ عَوْفٍ , قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ , فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَهْيَ حَامِلٌ؟" فَقَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:" أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى"، وَقَالَ أَيُّوبُ: عَنْ مُحَمَّدٍ , لَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ.
ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے، کہا ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر ہوا۔ بڑے بڑے انصاری وہاں موجود تھے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث کے باب سے متعلق عبداللہ بن عتبہ کی حدیث کا ذکر کیا۔ عبدالرحمٰن نے کہا لیکن عبداللہ بن عتبہ کے چچا (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) ایسا نہیں کہتے تھے۔ (محمد بن سیرین نے کہا) کہ میں نے کہا کہ پھر تو میں نے ایک ایسے بزرگ عبداللہ بن عتبہ کے متعلق جھوٹ بولنے میں دلیری کی ہے کہ جو کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ ابن سیرین نے کہا کہ پھر جب میں باہر نکلا تو راستے میں مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملاقات ہو گئی۔ (راوی کو شک ہے کہ یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے رفیقوں میں سے تھے) میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی عدت کے متعلق کیا فتویٰ دیتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تم لوگ اس حاملہ پر سختی کے متعلق کیوں سوچتے ہو اس پر آسانی نہیں کرتے (اس کو لمبی) عدت کا حکم دیتے ہو۔ سورۃ نساء چھوٹی (سورۃ الطلاق) لمبی سورۃ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4532  
4532. حضرت ابن سیرین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں انصار کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ ان میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے۔ وہاں میں نے سبیعہ بنت حارث کے متعلق حضرت عبداللہ بن عتبہ کی حدیث بیان کی تو عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ ان کے چچا تو اس کے قائل نہیں ہیں۔ میں نے بلند آواز میں (عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے) کہا: اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو میں نے اس شخص پر افترا باندھا ہے جو کوفہ میں موجود ہے۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے نکلا اور مالک بن عامر یا مالک بن خوف سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے جبکہ وہ حاملہ ہو اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: تم ایسی عورت پر سختی تو کرتے ہو لیکن اسے رخصت نہیں دیتے۔ سورہ نساء قُصرٰی، سورہ نساء طولیٰ کے بعد نازل ہوئی۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4532]
حدیث حاشیہ:
سورۃ طلاق کو چھوٹی سورۃ نساء کہا گیا ہے اور سورۃ نساء کو بڑی سورۃ نساء قراردیا گیا ہے۔
سورۃ طلاق میں اللہ نے یہ فرمایا ہے ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ (الطلاق: 4)
تو حاملہ عورتیں سورۃ نساء کی آیت سے خاص کر لی گئیں۔
اس سے یہ نکلا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مذہب بھی حاملہ عورت کی عدت میں یہی تھا کہ وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو جاتی ہے اور عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا قول غلط نکلا۔
ایوب سختیانی کی روایت میں شک نہیں ہے۔
جیسے عبداللہ بن عون کی روایت میں ہے کہ مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملا۔
اس روایت کو خود امام بخاری نے تفسیر سورۃ طلاق میں وصل کیاہے۔
روایت میں مذکورہ سبیعہ کا قصہ یہ ہے کہ سبیعہ کا خاوند سعد بن خولہ مکہ میں مر گیا اس وقت سبیعہ حاملہ تھی۔
خاوند کے انتقال کے چند روز بعد وہ بچہ جنی اور ابو انسابل نے اس سے نکاح کرنا چاہا۔
اس نے آنحضرتﷺ سے مسئلہ پوچھا۔
آپ نے اس کو نکاح کی اجازت دے دی۔
معلوم ہواکہ حاملہ کی عدت وضع حمل سے گزر جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول یہ تھا کہ حاملہ بھی عدت پوری کرے گی اگر وضع حمل میں چار مہینے دس دن باقی ہوں تو اس مدت تک اگر زیادہ عرصہ باقی ہو تو وضع حمل تک انتظار کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4532   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4532  
4532. حضرت ابن سیرین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں انصار کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ ان میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے۔ وہاں میں نے سبیعہ بنت حارث کے متعلق حضرت عبداللہ بن عتبہ کی حدیث بیان کی تو عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ ان کے چچا تو اس کے قائل نہیں ہیں۔ میں نے بلند آواز میں (عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے) کہا: اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو میں نے اس شخص پر افترا باندھا ہے جو کوفہ میں موجود ہے۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے نکلا اور مالک بن عامر یا مالک بن خوف سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے جبکہ وہ حاملہ ہو اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: تم ایسی عورت پر سختی تو کرتے ہو لیکن اسے رخصت نہیں دیتے۔ سورہ نساء قُصرٰی، سورہ نساء طولیٰ کے بعد نازل ہوئی۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4532]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں سبیعہ بنت حارث ؓ کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا شوہر حجۃ الوداع کے موقع پر وفات پا گیا تھا اور یہ حاملہ تھیں، ابھی چار ماہ دس دن نہیں گزرے تھے کہ حمل سے فارغ ہو گئیں۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
وضع حمل سے تمھاری عدت ختم ہو گئی۔
(سنن أبي، داود، الطلاق، حدیث: 2306)
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہےخواہ وضع حمل جلدی ہو یا وہ دیر سے بچہ جنم دے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت کا حکم صرف غیر حاملہ کے لیے ہے اب تین صورتیں نکلتی ہیں۔
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
عورت مطلقہ ہو اور حمل سے ہو لیکن اس کا خاوند فوت نہ ہوا ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
'' (الطلاق: 4/65)
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
اس کی عدت وضع حمل ہے یا أبعدالأجلین یعنی دونوں مدتوں میں سے طویل مدت؟ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ اس کی عدت أبعدالأجلین ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4909)
ابن ابی لیلیٰ نے یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ان کے ایک شاگرد حضرت مالک بن عامرؓ نے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
تم اس بیوہ پر سختی تو کرتے ہو کہ مدت حمل اگر چار ماہ دس دن سے بڑھ جائے تو عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وضع حمل سے پہلے اس کی عدت پوری نہیں ہو گی اور اسے رخصت نہیں دیتے کہ اگر وضع حمل چار ماہ دس دن سے کم عرصے میں ہو جائے تو وضع حمل کی عدت کو مکمل نہیں مانتے پھر فرمایا:
سورہ نساء قصری، یعنی سورہ طلاق، سورہ نساء طولی، یعنی سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے گویا سورہ طلاق کی آیت نے سورہ بقرہ کی آیت میں تخصیص کردی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول مشہور فقہی قاعدے کی اساس ہے کہ اگر کسی مسئلے میں جہاں کہیں دو ہدایات وارد ہوں تو ان میں قابل عمل وہی ہوتی ہے جوبعد میں نازل ہوئی ہو۔
بہر حال سورہ بقرہ کی آیت234۔
اور سورہ طلاق کی آیت: 4۔
میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ چار ماہ دس دن کی عدت ایسی عورتوں کے لیے ہے جو حمل سے نہ ہوں، اور اگر حمل ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4532