صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
55. بَابُ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”پیغمبر ایمان لائے اس پر جو ان پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا“۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِصْرًا عَهْدًا، وَيُقَالُ غُفْرَانَكَ مَغْفِرَتَكَ فَاغْفِرْ لَنَا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «إصرا» عہد وعدہ کے معنی میں ہے اور بولتے ہیں «غفرانك» یعنی ہم تیری مغفرت مانگتے ہیں، تو ہمیں معاف فرما دے۔
حدیث نمبر: 4546
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ , أَخْبَرَنَا رَوْحٌ , أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ , عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: أَحْسِبُهُ ابْنَ عُمَرَ ," وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ سورة البقرة آية 284 , قَالَ: نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا".
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں مروان اصفر نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے، کہا کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ انہوں نے آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه‏» کے متعلق بتلایا کہ اس آیت کو اس کے بعد کی آیت ( «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها») نے منسوخ کر دیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4546  
4546. حضرت مروان اصفر سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک سے بیان کرتے ہیں۔۔ میرے خیال کے مطابق وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہیں۔۔ انہوں نے فرمایا: ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ﴾ کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4546]
حدیث حاشیہ:
پہلی آیت کا مفہوم یہ تھا کہ تمہارے نفسوں کے وساوس پر بھی مواخذہ ہوگا۔
یہ معاملہ صحابہ کرام ؓ پر بہت شاق گزرا اور واقعی شاق بھی تھا کہ وساوس نفسانی دلوں میں پید اہوتے رہتے ہیں۔
آیت ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ نے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور محض وساوس نفسانی پر گرفت نہ ہونے کا اعلان کیا گیا جب تک ان کے مطابق عمل نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4546   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4546  
4546. حضرت مروان اصفر سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک سے بیان کرتے ہیں۔۔ میرے خیال کے مطابق وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہیں۔۔ انہوں نے فرمایا: ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ﴾ کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4546]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں جس آیت کو منسوخ کہا گیا ہے وہ ایک خبر پر مشتمل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی خیالات کا محاسبہ کرے گا لیکن خبر تو منسوخ نہیں ہوتی جیسا کہ اصول فقہ میں صراحت ہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ خبر محض واقعی منسوخ نہیں ہوتی بلکہ اسے منسوخ قراردینے میں کذب لازم آتا ہے۔
مثلاً:
اگرہم ﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى﴾ کو منسوخ کہیں گے تو اس خبر کا جھوٹا ہونا لازم آئے گا، اس بنا پر خبر محض میں نسخ واقع نہیں ہوتا، البتہ جو خبر کسی حکم پر مشتمل ہواس میں نسخ واقع ہوسکتا ہے۔
حدیث میں جس خبر کو منسوخ قراردیاگیا ہے وہ اس قسم کی ہے جو حکم پر مشتمل ہے، پھر مذکورہ بالا آیت کو متقدمین کی اصطلاح کے مطابق منسوخ کہا گیا ہے۔
ان کے ہاں تخصص پر بھی نسخ کا اطلاق کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں مذکور نسخ سے مراد تخصیص ہے جو آیت میں ہوئی ہے۔
تخصیص کے بعد محاسبے سے مراد ان خیالات کا محاسبہ ہے جنھیں انسان پختہ بنالے اوراپنے دل میں بٹھا لے اور وہ خیالات ووساوس جو بلاارادہ بدل میں آجائیں وہ اس محاسبے میں نہیں آئیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے:
"اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے لیے ان خیالات کو معاف کردیا ہے جو بے ساختہ دل میں آجائیں جب تک انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان پر عمل نہ کیا جائے۔
" (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5269)

ان آیات واحادیث میں اللہ تعالیٰ کے قانون سزا وجزا کا کلیہ بیان ہوا ہے کہ جو کام کسی انسان کی استطاعت سے بڑھ کرہو اس پر انسان کی باز پرس نہیں ہوگی۔
باز پرس تو اس بات یا کام پرہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی مگر اس اختیار اور استطاعت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ تودلوں کے راز تک جانتا ہے اورآنکھوں کی خیانت بھی اس سے چھپی نہیں رہتی۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4546