صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ: {قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں“۔
سَوَاءٌ قَصْدٌ.
‏‏‏‏ «سواء» کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔
حدیث نمبر: 4553
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ، عن معمر. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي، فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ؟ فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يُزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يَنَالُ مِنْكُمْ، وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّلَةِ، وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا، فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ، لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ، إِلَى قَوْلِهِ: اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ، فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الْأَبَدِ؟ وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ؟ قَالَ: فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَقَالَ: عَلَيَّ بِهِمْ فَدَعَا بِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمُ الَّذِي أَحْبَبْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «اشهدوا بأنا مسلمون‏» تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے`
«. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .»
. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: يخافه ملك بني الأصفر [المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه هنا قوله: إنه يخاف ملك بني الأصفر [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 88]
ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4553  
4553. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابوسفیان بن حرب نے میرے روبرو یہ بیان دیا: جس مدت کے دوران میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان (صلح حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا، میں ان دنوں ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوا۔ جب میں ملک شام میں تھا تو نبی ﷺ کا ایک نامہ مبارک ہرقل کے پاس لایا گیا۔ حضرت دحیہ کلبی ؓ اسے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے لا کر عظیم بصرٰی کے حوالے کر دیا تھا اور عظیم بصرٰی نے وہ خط ہرقل کو پہنچایا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے دریافت کیا: ہماری حدود سلطنت میں اسی مدعی نبوت کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے؟ درباریوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے لوگوں کی معیت میں بلایا گیا۔ جب ہم ہرقل کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھا لیا اور پوچھنے لگا، یہ شخص جو خود کو نبی کہتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4553]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث یہاں صرف اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں آپﷺ کے نامہ مبارک کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے اہل کتاب کو آیت ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ﴾ (آل عمران: 64)
کے ذریعہ دعوت اسلام پیش کی تھی۔
مگر افسوس کہ ہرقل حقیقت جان کر بھی اسلام نہ لا سکا اور قومی عار پر اس نے نارِدوزخ کو اختیار کیا۔
بیشتر دنیا داروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ دنیاوی عار کی وجہ سے حق سے دور رہے ہیں یا باوجودیکہ دل سے حق کو حق جانتے ہیں۔
اس طویل حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج ہوتا ہے، جس کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔
ابوکبشہ آپ ﷺ کی انا حلیمہ دائی کے شوہرکا نام تھا۔
اس لیے قریش آپ ﷺ کو ابوکبشہ سے نسبت دینے لگے تھے کہ وہ آپ ﷺ کا رضاعی باپ تھا۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔
گو دل سے تصدیق کرتا تھا مگر آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ وہ نصرانی ہے، اسلام قبول کرنے کے لیے ظاہر وباطن ہر دو طرح سے مسلمان ہونا ضروری ہے كَلِمَةٍ سوآء کے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
أَنَّ الْمُرَادَ بِالْكَلِمَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَلَى ذَلِكَ يدل سِيَاق الْآيَة الَّذِي تضمنه قَوْله أَن لانعبد إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنَّ جَمِيعَ ذَلِكَ دَاخِلٌ تَحْتَ كَلِمَةِ الْحَقِّ وَهِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَالْكَلِمَةُ عَلَى هَذَا بِمَعْنَى الْكَلَامِ وَذَلِكَ سَائِغٌ فِي اللُّغَةِ فَتُطْلَقُ الْكَلِمَةُ عَلَى الْكَلِمَاتِ لِأَنَّ بَعْضَهَا ارْتَبَطَ بِبَعْضٍ فَصَارَتْ فِي قُوَّةِ الْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ بِخِلَافِ اصْطِلَاحِ النُّحَاةِ فِي تَفْرِيقِهِمْ بَيْنَ الْكَلِمَةِ وَالْكَلَامِ (فتح الباری)
خلاصہ یہی ہے کہ کلمہ سواء سے مراد لااله الا اللہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4553   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4553  
4553. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابوسفیان بن حرب نے میرے روبرو یہ بیان دیا: جس مدت کے دوران میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان (صلح حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا، میں ان دنوں ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوا۔ جب میں ملک شام میں تھا تو نبی ﷺ کا ایک نامہ مبارک ہرقل کے پاس لایا گیا۔ حضرت دحیہ کلبی ؓ اسے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے لا کر عظیم بصرٰی کے حوالے کر دیا تھا اور عظیم بصرٰی نے وہ خط ہرقل کو پہنچایا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے دریافت کیا: ہماری حدود سلطنت میں اسی مدعی نبوت کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے؟ درباریوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے لوگوں کی معیت میں بلایا گیا۔ جب ہم ہرقل کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھا لیا اور پوچھنے لگا، یہ شخص جو خود کو نبی کہتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4553]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے یہ تعلق ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے اس آیت پر عمل کرنے کا ذکر ہے جیسے امام بخاری ؒ نے عنوان میں ذکر کیا ہے مختلف بادشاہوں کو جو دعوتی خطوط لکھے گئے ان میں اسی آیت کو بنیاد بنا کر رسول ﷺ نے دعوت حق دی۔

اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہرقل بالکل صحیح نتیجے پر پہنچ گیا تھا مگر اس کے درباریوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چل سکی، اور اتنی جراءت ایمانی اس میں نہ تھی کہ وہ اپنی حکومت کوخیر آباد کہہ کرمسلمان ہوجاتا اور دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کرلیتا۔
یہی وہ کلمہ سواء یا کلمہ توحید ہے جس کا ذکر ہرالہامی کتاب میں پایا جاتا ہے۔
بعد میں لوگوں نے اس میں کئی طرح کی ملاوٹ کردی جیسا کہ عیسائیوں نے بعد میں الوہیت مسیح اور عقیدہ تثلیث کا شاخسانہ کھڑاکردیا تھا۔

اس کلمہ سواء کی تین دفعات ہیں:
۔
اللہ کے سوا کسی کو عبادت نہ کریں۔
کسی دوسرے کو اللہ کے اسماء صفات اور اختیارات میں شریک نہ کریں۔
۔
کوئی شخص اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب نہ بنائے۔
اس آخری دفعہ کا مطلب یہ ہےکہ اللہ کے مقابلے میں احبار ورہبان کی بات کو نہ مانا جائے۔
دورحاضر میں اتحاد بین المذاہب کا بہت چرچاہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق اتحاد بین المذاہب کی بنیاد اگریہی کلمہ ہو، یعنی کلمہ توحید تو یہ تحریک بہت ہی بابرکت ہے، اگر اس کے علاوہ کسی اور بات کو اس کی بنیاد قراردیا گیا ہے تویہ اتحاد کی تحریک نہیں بلکہ اسلام کو نیچا دکھانے کی سازش ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4553