صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
10. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور رسول تم کو پکارتے تھے تمہارے پیچھے سے“۔
وَهْوَ تَأْنِيثُ آخِرِكُمْ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ: فَتْحًا، أَوْ شَهَادَةً.
‏‏‏‏ «اخراكم» «آخركم» کی «تأنيث» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دو سعادتوں میں سے ایک سعادت فتح اور دوسری شہادت ہے۔
حدیث نمبر: 4561
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، وَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا۔ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو افسر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی، آیت «فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم» اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے۔ میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابیوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2662  
´کمین (گھات) میں بیٹھنے والوں کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2662]
فوائد ومسائل:

دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔


رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
جو اگرچہ عارضی تھی۔
اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔


شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔
اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2662   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4561  
4561. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر امیر مقرر فرمایا۔ اس دن بہت سے مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ آیت کریمہ اسی کے متعلق نازل ہوئی: جبکہ رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے بلا رہا تھا۔۔ اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ صحابہ کرام ؓ باقی رہ گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4561]
حدیث حاشیہ:
یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔
ان تیر اندازوں کی نافرمانی کی پاداش میں سارے مسلمانوں کو نقصان عظیم اٹھانا پڑا کہ ستر صحابہ ؓ شہید ہوئے۔
ان تیر اندازوں نے نص کے مقابلہ پر رائے قیاس سے کام لیا تھا، اس لیے قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے رائے قیاس پر چلنا اللہ و رسولﷺ کے ساتھ غداری کرنا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4561   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4561  
4561. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر امیر مقرر فرمایا۔ اس دن بہت سے مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ آیت کریمہ اسی کے متعلق نازل ہوئی: جبکہ رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے بلا رہا تھا۔۔ اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ صحابہ کرام ؓ باقی رہ گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4561]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ رسول ﷺ نے پچاس افراد کے پیدل دستے کا افسر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم نے اپنی جگہ سے نہیں ہٹنا، خواہ تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک کرلے جارہے ہیں جب تک میں تمہاری طرف کوئی دوسرا پیغام نہ بھیجوں اور اگرتم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے کر اسے کچل دیا ہے تب بھی یہاں سے مت ہٹنا، جب تک میں تمھیں بلا نہ بھیجوں۔
ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو ماربھگایا۔
میں نے خود مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں۔
یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے دستے نے کہا:
اب غنیمت کا مال اکٹھا کرو تمہارے ساتھی تو غالب آچکے ہیں، اب تم کیا دیکھ رہے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے کہا:
کیا تم وہ بات بھول گئے جو تمھیں رسول اللہ ﷺ نے کہی تھی؟ وہ کہنے لگے:
واللہ! ہم تو لوگوں کے پاس جا کر غنیمت کا مال لوٹیں گے۔
جب وہ درہ چھوڑ کر لوگوں کے پاس آگئے تو کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کے منہ پھیر دیے اور وہ شکست کھا کربھاگنے لگے۔
ادھراللہ کے رسولﷺ انھیں بلارہے تھے، اس وقت آپ کے ساتھ صرف بارہ آدمی ر ہ گئے تھے۔
کافروں نے مسلمانوں کے ستر آدمی شہید کیے جبکہ بدر کے دن مسلمانوں نے ایک سوچالیس کافروں کا نقصان کیا تھا، سترکوقید اورستر کو قتل کیا تھا۔
(صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 3039)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4561