صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
53. بَابُ الصَّلاَةِ فِي مَوَاضِعِ الْخَسْفِ وَالْعَذَابِ:
باب: دھنسی ہوئی جگہوں میں یا جہاں کوئی اور عذاب اترا ہو وہاں نماز (پڑھنا کیسا ہے؟)۔
وَيُذْكَرُ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَرِهَ الصَّلَاةَ بِخَسْفِ بَابِلَ.
‏‏‏‏ علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے بابل کی دھنسی ہوئی جگہ میں نماز کو مکروہ سمجھا۔
حدیث نمبر: 433
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْمُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ، لَا يُصِيبُكُمْ مَا أَصَابَهُمْ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان عذاب والوں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو روتے ہوئے گزرو، اگر تم اس موقع پر رو نہ سکو تو ان سے گزرو ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ان کا سا عذاب آ جائے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:433  
433. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان عذاب یافتہ قوموں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو اس طرح گزرو کہ تم پر یہ گریہ و بکا طاری ہو۔ اگر رو نہ سکو تو وہاں سے مت گزرو،مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جس نے انہیں اپنی گرفت میں لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:433]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال یہ مرفوع حدیث ہے کہ نبی ﷺ جب غزوہ تبوک کے لیے جاتے ہوئے دیار ثمود یعنی مقام حجر سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ایسے مقامات سے گزرنے کی مجبوری ہو تو اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے گزرنا چاہیے، غفلت اور بے پروائی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
علامہ ابن بطال ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے مقامات پر نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ نماز میں بھی رونا اور عاجزی کرنا ہوتا ہے۔
(شرح ابن بطال: 87/2)
گویا ابن بطال ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث حضرت علی ؓ کے عمل کے مطابق نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حدیث پورے طور پر حضرت علی ؓ کے عمل کے مطابق ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پڑاؤ نہیں کیا۔
جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر جھکا لیا اور جلدی جلدی چلنے لگے تاآنکہ اس وادی کو عبور کر لیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4419)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وہاں قیام نہیں فرمایا اور نہ نماز ہی پڑھی۔
جیسا کہ حضرت علی ؓ نے بابل کے خسف شدہ مقام سے گزرتے ہوئے کیا تھا، اس لیے معلوم ہوا کہ عذاب والے علاقوں اور خسف شدہ مقامات میں قیامت کرنا اور وہاں نماز ادا کرنا شارع علیہ السلام کو پسند نہیں۔
اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے۔
یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ گریہ وبکاتو کمال خشوع کی علامت ہے اور نماز میں یہ کیفیت مطلوب ہے، اس لیے نماز سے روکنا کیسے ثابت ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے اندر جو خشوع خضوع مطلوب ہے، وہ نماز ہی کے سلسلے میں ہے اور صورت مذکورہ میں جو گریہ طاری ہو گا وہ عذاب یافتہ اقوام کے احوال میں غور وفکر سے متعلق ہے جو نماز میں مطلوب حضور قلب کے منافی ہے۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کوخود اپنی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے، نیز عذاب شدہ اقوام کے مقامات پر رہائش رکھنے کی ممانعت ہے، اگر وہاں سے بامر مجبوری کبھی گزرنا پڑے تو جلدی جلدی گزرناچاہیے۔
جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے:
﴿ وَسَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ﴾ اور تم ایسے لوگوں کی بستیوں میں آباد ہوئے تھے جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم ڈھایا تھا اور تم پر واضح ہو چکا تھا کہ ان سے ہم نے کیا سلوک کیا تھا اور ہم نے تمھیں ان کے حالات بھی بتا دیے تھے۔
(إبراهیم: 14۔
45)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 433