صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
13. بَابُ: {إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”مسلمانوں سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں نے تمہارے خلاف بہت سامان جنگ جمع کیا ہے، پس ان سے ڈرو تو مسلمانوں نے جواب میں حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا“۔
حدیث نمبر: 4564
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ آخِرَ قَوْلِ إِبْرَاهِيمَ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا «حسبي الله ونعم الوكيل‏.‏» تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4564  
4564. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمات جو آپ کی زبان سے نکلے وہ یہ تھے: "مجھے اللہ کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4564]
حدیث حاشیہ:
اس مبارک کلمہ میں توحید وتوکل کا بھر پور اظہار ہے۔
اسی لیے یہ ایک بہترین کلمہ ہے۔
جس سے مصائب کے وقت عزم و حوصلہ میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔
بطور وظیفہ اسے بلا ناغہ پڑھنے سے نصرت الٰہی حاصل ہوتی ہے اور اس کی برکت سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول کو خود تلقین فرمایا ہے جیسا کہ آیت ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾ (التوبة: 129)
میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4564