صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
16. بَابُ: {لاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا} :
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے خواہ مخواہ ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، سو ایسے لوگوں کے لیے ہرگز خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ سکیں گے“۔
حدیث نمبر: 4568
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ، قَالَ لِبَوَّابِهِ:" اذْهَبْ يَا رَافِعُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ، وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا، لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَمَا لَكُمْ وَلِهَذِهِ، إِنَّمَا دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ فَسَأَلَهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ، وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ، فَأَرَوْهُ أَنْ قَدِ اسْتَحْمَدُوا إِلَيْهِ بِمَا أَخْبَرُوهُ عَنْهُ فِيمَا سَأَلَهُمْ، وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ كِتْمَانِهِمْ"، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كَذَلِكَ حَتَّى قَوْلِهِ:: يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا سورة آل عمران آية 187 - 188. تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. ح حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ بِهَذَا.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں علقمہ بن وقاص نے خبر دی کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون‏» کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیئے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابورافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت «وإذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب‏» کی اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کر دینا لوگوں پر، آیت «يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا‏» جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تک۔ ہشام بن یوسف کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی ابن جریج سے روایت کیا۔ ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہوں نے ابن جریج سے کہا مجھ کو ابن ابی ملیکہ نے خبر دی، ان کو حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا، پھر یہی حدیث بیان کی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4568  
4568. حضرت علقمہ بن وقاص سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مروان (امیر مدینہ) نے اپنے دربان سے کہا: اے رافع! حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے دریافت کرو کہ اگر وہ شخص جو عطا شدہ چیز سے خوش ہو اور یہ بات بھی پسند کرے کہ ناکردہ فعل پر بھی اس کی تعریف کی جائے، وہ ضرور عذاب سے دوچار ہو گا، تب تو ہم سب عذاب دیے جائیں گے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مذکورہ آیت کریمہ سے تمہارا (مسلمانوں کا) کیا تعلق؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دن نبی ﷺ نے چند یہودیوں کو بلا کر ان سے کوئی بات دریافت کی تو انہوں نے اصل بات چھپا کر کوئی اور بات بتا دی اور آپ کو باور کرایا کہ آپ کے سوال کا جواب دے کر انہوں نے قابل تعریف کام کیا ہے، اس طرح وہ بات چھپانے سے بھی بہت خوش ہوئے۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالٰی نے اہل کتاب سے عہد و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4568]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث جو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے۔
اس کے تقاضے کے مطابق یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی جبکہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کی شان نزول یہود مدینہ کا کردار ہے اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی یہود کے کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ وہ بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار، پیشہ خادم خلق اورعالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی سی کی مگر شہرت و ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا ہو تو اس کا وہی حشر ہو گا جو آیت میں مذکورہ ہے۔

بہر حال آیت کریمہ اگرچہ نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن لفظ کی عمومیت ہر اس شخص کو شامل ہے جو اچھا کام کرے پھر اس پر فخر و غرور کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرے اور یہ بھی پسند کرے کہ اس کے ناکردہ کاموں پر بھی لوگ اس کی تعریف کریں، لیکن حضرت ابن عباس ؓ کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے، اسے ان کا مسلک ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو جمہور کے موقف کے خلاف ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4568