صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى} :
باب: آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کی تفسیر۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَسْتَنْكِفُ: يَسْتَكْبِرُ قِوَامًا قِوَامُكُمْ مِنْ مَعَايِشِكُمْ، لَهُنَّ سَبِيلًا: يَعْنِي الرَّجْمَ لِلثَّيِّبِ، وَالْجَلْدَ لِلْبِكْرِ"، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَثْنَى وَثُلَاثَ: يَعْنِي اثْنَتَيْنِ، وَثَلَاثًا، وَأَرْبَعًا، وَلَا تُجَاوِزُ الْعَرَبُ رُبَاعَ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (قرآن مجید کی آیت) «يستنكف»، «يستكبر» کے معنی میں ہے۔ «قواما» ( «قياما») یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ «لهن سبيلا» یعنی شادی شدہ کے لیے رجم اور کنوارے کے لیے کوڑے کی سزا ہے (جب وہ زنا کریں) اور دوسرے لوگوں نے کہا (آیت میں) «مثنى وثلاث ورباع» سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب «رباع» سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔
حدیث نمبر: 4573
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:"أَنَّ رَجُلًا كَانَتْ لَهُ يَتِيمَةٌ فَنَكَحَهَا، وَكَانَ لَهَا عَذْقٌ، وَكَانَ يُمْسِكُهَا عَلَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا مِنْ نَفْسِهِ شَيْءٌ، فَنَزَلَتْ فِيهِ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، أَحْسِبُهُ قَالَ: كَانَتْ شَرِيكَتَهُ فِي ذَلِكَ الْعَذْقِ وَفِي مَالِهِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے کہا، کہا مجھ کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى‏» کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔ ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4573  
4573. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک شخص کسی یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا۔ اس شخص نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کر لیا کہ وہ ایک کھجور کے درخت کی مالک تھی۔ وہ آدمی اسی درخت کی وجہ سے اس کی پرورش کرتا رہا ورنہ اس کے دل میں لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: "اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے متعلق عدل نہ کر سکو گے۔" (حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ) میرے خیال کے مطابق وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصے دار تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4573]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ بالا آیت دو قسم کے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ایک تو وہ جن کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کی بد صورتی یا کسی اور وجہ سے اس کے نکاح میں کوئی رغبت تو نہ رکھتے ہوں لیکن اس وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کر لیں کہ لڑکی مال دار ہے یا وہ ان کے مال میں شریک ہے۔
وہ کسی اور سے اس کا نکاح کر کے تیسرے آدمی کو مال میں شریک نہ کرنا چاہتے ہوں۔
دوسرے وہ جن کی پرورش میں یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح میں رغبت بھی رکھتے ہوں لیکن نکاح کرتے وقت حق مہر میں بے انصافی کریں اور پورا حق مہر نہ ادا کریں ان دونوں قسم کے لوگوں کو اس آیت کریمہ مین اپنی زیر پرورش لڑکیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔

اس روایت کے آخر میں جو بات شک کے ساتھ بیان ہوئی ہے اسے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت میں یقین کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں۔
"یہ اس آدمی کی بابت ہے جو کسی یتیم لڑکی کا سر پرست ہوتا اور وہ لڑکی اس کے ساتھ اس کے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی حصہ دار ہوتی لیکن سر پرست اس سے نکاح میں کوئی رغبت نہ رکھتا حتی کہ یہ بھی پسند نہ کرتا کہ کسی اور کے ساتھ اس کا نکاح کردے اور اسے اپنے مال میں شریک کر لے چنانچہ وہ اس لڑکی کو یوں ہی لٹکائےرکھتا۔
اس آیت کریمہ میں اس طرح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
'' (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4600)
بہرحال اس حدیث میں ایک ہی قسم کو بیان کیا گیا ہے جبکہ آئندہ حدیث میں اس کی تفصیل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4573