سنن دارمي
من كتاب الصللاة -- نماز کے مسائل
167. باب إِذَا نَامَ عَنْ حِزْبِهِ مِنَ اللَّيْلِ:
کوئی شخص رات کی نماز سے سویا رہ جائے تو کیا کرے
حدیث نمبر: 1524
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَمِّي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مثل مروی ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1526]»
تخریج کے لئے [مسند ابي يعلي 6576] دیکھئے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 1516 سے 1524)
ان تمام احادیثِ صحیحہ سے الله تعالیٰ کا آسمانِ دنیا پر آنا اور منادی کرنا ثابت ہوا جو بلا تکییف و تمثیل صحیح اور ثابت ہے، عقل کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ اس کی مخلوق سے تشبیہ جائز ہے۔
اہلِ حدیث اور سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے جس طرح ان کا عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستوی عرش ہے اور اس کی رحمت و علم ساری کائنات کو محیط ہے۔
اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر آنے کا ذکر 7 آیاتِ شریفہ اور 15 احادیثِ مبارکہ صحیحہ سے ثابت ہے اس لئے یہ تاویل کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے یا یہ کہ فرشتہ اترتا ہے بالکل لغو اور باطل ہے جس کی تفصیل علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب «نزول الرّب إلى السماء الدنيا» میں دیکھی جا سکتی ہے، بعض میں اوّل اللیل میں، اور بعض میں بیچ رات میں، اور کچھ احادیث میں آخری تہائی رات میں اللہ تعالیٰ کا آسمانِ دنیا پر آنا ذکر ہے، تو ہو سکتا ہے کبھی رات کے پہلے تہائی حصہ میں اور کبھی بیچ رات میں اور کبھی آخری تہائی حصے میں نزول جلّ شانہ ہو، اسی لئے کبھی کبھی حبیبِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوّل حصے میں اور کبھی بیچ میں اور کبھی آخری تہائی میں وتر پڑھتے تھے اور آخری تہائی حصے ہی سے فجر سے پہلے تہجد پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی کہ رب ذو الجلال کا نزولِ مبارک اس ساعت میں آسمانِ دنیا پر ہوتا ہے۔
(اللہ تعالیٰ اس کی تو فیق بخشے، آمین)۔