سنن دارمي
من كتاب الصللاة -- نماز کے مسائل
175. باب إِذَا كَانَ في الصَّلاَةِ نُقْصَانٌ:
نماز میں اگر کمی رہ جائے تو کیا کرنا چاہئے
حدیث نمبر: 1540
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، فَسَبَّحَ بِهِ مَنْ خَلْفَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ: أَنْ قُومُوا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، "سَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: هَكَذَا صَنَعَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ يَزِيدُ: يُصَحِّحُونَهُ.
زیاد بن علاقہ نے کہا: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو دو رکعت پر بیٹھے نہیں کھڑے ہو گئے، نمازیوں نے سبحان اللہ کہا لیکن انہوں نے اشارہ کیا کہ وہ بھی کھڑے ہو جائیں، پھر جب نماز پوری کر لی تو سلام پھیرا اور دو سجدے کئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی ہمارے ساتھ کیا تھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف يزيد بن هارون متأخر السماع من عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 1542]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1036، 1037]، [ترمذي 365]، [أحمد 247/4، 253] و [عبدالرزاق 3483]

وضاحت: (تشریح احادیث 1537 سے 1540)
سہو کے معنی بھول چوک کے ہیں اور نماز میں جو بھول چوک ہو جائے تو نماز کے آخر میں سلام سے پہلے دو سجدے کرنے کو سجود السہو کہتے ہیں، امام دارمی رحمہ اللہ نے پچھلے تین ابواب میں تین قسم کی بھول چوک کے بارے میں احادیثِ صحیحہ ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز میں خواہ وہ فرض ہو یا نفل، امام ہو یا منفرد کمی، زیادتی، یا شک کی وجہ سے سجدۂ سہو کرنا واجب ہے، جب ان امورِ ثلاثہ میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے۔
اب یہ سجدۂ سہو تسلیم سے پہلے ہے یا بعد میں، سو علماء کا اس میں اختلاف ہے۔
بعض نے کہا: سلام کے بعد سجدۂ سہو کر لے، اور بعض علماء نے ہر صورت میں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کے لئے کہا، اور بہت سارے صحابہ، تابعین اور ائمہ کا یہی مسلک ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: «آخر الأمرين السجود قبل السلام»، اور امام احمد رحمہ اللہ وغیرہم کا مسلک یہ ہے کہ جیسے جیسے احادیث میں وارد ہے ویسے ہی سجدۂ سہو کرے، اور اس کی تین صورتیں ہیں «حسب ما ذكره الامام الدارمي» ۔
1- پہلی صورت یہ ہے کہ نماز کی رکعتوں میں امام کو شک ہو جائے تین ہیں یا چار تو اقل پر یقین کرتے ہوئے ایک رکعت مغرب کی اور دو رکعت ظہر یا عصر کی اور پڑھے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کر لے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتا ہے، حدیث رقم (1540)۔
2- دوسری صورت نماز میں زیادتی کی ہے، یعنی رکعت سجدہ یا کوئی اور رکن بھول کر زیادہ ہو جائے تو نمازی اس غلطی کو دور کرنے کے لئے دو سجدے کر لے اور پھر سلام پھیرے۔
اور اگر نماز میں کچھ زیادتی ہوئی ہے اور نماز سے فراغت کے بعد بتایا گیا کہ رکعت، رکوع یا سجدہ زیادہ ہو گیا تو ایسی صورت میں فوراً سجدۂ سہو کر کے سلام پھیرے۔
3- تیسری صورت کمی کی ہے، اور اس کی دو حالتیں ہیں، اگر رکن نماز کا چھوٹ گیا تو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ وہ رکن پھر سے ادا کرنا ہوگا اور بعد کی ساری نماز باطل ہوگی۔
مثلاً اگر بھول کر تکبیرِ تحریمہ نہیں کہی تو نماز باطل ہے، اگر نماز کے دیگر ارکان رکوع، سجده، قیام، وغیرہ رہ جائے تو اسے پورا کرنا ہوگا، جیسے چوتھی رکعت میں صرف ایک سجدہ کیا اور تشہد کے بعد سلام پھیر دیا اور تسلیم کے بعد بتایا گیا کہ آخری رکعت میں صرف ایک سجدہ ہوا ہے تو پہلے سجدہ کر لے پھر تشہد پڑھے اور پھر سجدۂ سہو کرے پھر سلام پھیرے۔
اور اگر یہ کمی نماز کے واجبات میں ہوئی ہے تو صرف سجدۂ سہو کافی ہے، جیسے کہ تشہدِ اوّل میں بھول کر نمازی کھڑا ہو جائے، اگر پوری طرح سے کھڑا نہیں ہوا تو سبحان اللہ کہنے پر تشہد کے لئے لوٹنا لازم ہے اور سجدۂ سہو کرے، اگر سیدھا کھڑا ہوگیا ہو تو نماز پوری کر لے اور سلام سے پہلے سجدۂ سہو کر لے اور پھر سلام پھیرے۔
یہ سجدۂ سہو کی چند حالتیں ہیں اس کی کامل معرفت کے لئے نماز کے ارکان اور واجبات کو جاننا بے حد ضروری ہے، اور تفصیل کے لئے نیل الاوطار اور المغنیٰ وغیرہ کا مراجعہ اشد ضروری ہے، قاری کی آسانی کے لئے نماز کے ارکان و واجبات یہاں درج کئے جاتے ہیں کیونکہ راقم کی نظر میں یہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے اور نماز میں بھول چوک ہو جانے پر نماز کی صحت کا دارو مدار اسی پر ہے۔
ایک اور تنبیہ بے حد ضروری ہے کہ نماز میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو اور فصل زیادہ ہو جائے یعنی مسجد سے لوگ نکل جائیں اور وضو بھی ٹوٹ جائے تو ایسی صورت میں وہ پوری نماز لوٹانی پڑے گی، اس کی تکمیل اور سجدۂ سہو کافی نہیں ہوگا۔
ارکان صلاة چوده ہیں:
(1) قدرت ہو تو کھڑے ہونا، (2) تکبیرِ تحریمہ، (3) سورۂ فاتحہ کا پڑھنا، (4) رکوع، (5) قومہ میں ٹھیک سے کھڑا ہونا، (6) سجدہ سات اعضاء پر کرنا، (7) سجدے سے سر اٹھانا، (8) دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنا، (9) تمام افعال میں اطمینان کا ہونا، (10) ترتیب کا ہونا، (11) آخری تشہد، (12) تشہد کے لئے بیٹھنا، (13) تشہد میں پڑھنا، (14) دونوں جانب سلام پھیرنا۔
واجبات صلاة آٹھ ہیں:
(1) تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیرات، (2) امام اور منفرد کا «سمع اللّٰه لمن حمده» کہنا، (3) سب کا «ربنا لك الحمد» کہنا، (4) رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہنا، (5) سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہنا، (6) دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفر لي» کہنا، (7) تشہدِ اوّل میں التحیات کہنا، (8) تشہدِ اوّل کے لئے بیٹھنا۔
مختصر یہ کہ اگر ارکانِ نماز میں سے کوئی رکن چھوٹا ہو تو وہ رکن ادا کرنا اور سجدۂ سہو لازم ہے، اور اگر واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو صرف سجدۂ سہو کافی ہوگا۔
واللہ اعلم۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [المغنىٰ 644/1] ، [بداية المجتهد 239/1] ، [نيل الأوطار 130/3] ۔